کراچی کی سڑکوں پر ان دنوں فقیروں کی بھرمار ہے۔ جہاں دیکھو سڑک اور فٹ پاتھوں پر، ہر طرف فقیر ہاتھ پھیلا کر بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں جہاں زیادہ تر تعداد پیشہ ور بھکاریوں کی ہے، وہیں ان میں غربت کا شکار افراد بھی شامل ہیں جو ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہیں۔
پاکستان اُن چند ملکوں میں شامل ہے جہاں پولیو کو اب تک ختم نہیں کیا جاسکا۔ اس ناکامی کی مختلف وجوہات ہیں۔
سیف اللہ کو 'پولیو' کی بیماری ہے۔ قدرت نے اُنھیں دو پاؤں تو دئے ہیں، مگر چل نہیں سکتا؛ ہاتھ بھی ہیں مگر دایاں ہاتھ کام نہیں کرتا۔۔
تین پہیوں والی سائیکل ہی سیف اللہ کا سہارا ہے، جو اسے سفر میں مدد دیتی ہے۔ بھیک کی رقم ہی اس کے گزر بسر کا ذریعہ ہے۔
وائس آف امریکہ اردو سروس کی نمائندہ نے سوال کیا کہ 'تم بھیک کیوں مانگتے ہو؟‘ اس پر اُن کا کہنا تھا کہ ’اگر بھیک نہیں مانگوں گا تو کیا کروں گا؟ غریب آدمی ہوں، گھر کا خرچہ چلانا ہے‘۔
سیف بتاتا ہے کہ ’میں تین سال کا تھا جب مجھے بخار ہوا اور ہاتھ پاؤں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ والدین خود پریشان تھے کہ یہ مجھے کیا ہوا؟‘
ڈاکٹروں نے بتایا کہ 'یہ پولیو ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں اسکا کوئی علاج نہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ'آج سے 30 سال پہلے یہاں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کا کوئی رواج ہی نہیں تھا۔ کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ پولیو کیا ہوتا ہے؟‘
سیف کا تعلق ایک انتہائی غریب طبقے سے ہے جسے دو وقت کی روزی روٹی ملنا مشکل ہے۔ کوئی کام کر نہیں سکتا، نا ہی چھوٹا سا کوئی کاروبار کرنے کیلئے پیسے ہیں‘۔
اُنھوں نے شکوہ کیا کہ حکومت بھی معذور لوگوں کی امداد کے لیے کوئی قابل ذکر کام نہیں کرتی۔
پولیو قطرے پلانے سے متعلق سوال پر، سیف کا کہنا تھا کہ ’میں ایک مثال ہوں۔ لوگ اس معذوری سے اپنے بچوں کو بچائیں اور پولیو کے قطرے اپنے بچوں کو ضرور پلائیں‘۔
نائیجیریا اور افغانستان کی طرح، پاکستان پولیو جیسا موذی مرض میں اب تک مبتلا ہے، جہاں یہ مرض ختم نہیں کیا جا سکا۔
حکام کے مطابق، رواں سال پاکستان میں پولیو کے کیسز میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ سال 2015 کے نصف تک، ملک بھر سے اب تک 24 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں جو گزشتہ سال کی نسبت کافی کم تعداد ہے، جبکہ 2014 میں سال کے نصف تک 85 کیسز سامنے آئےتھے۔
واضح رہے کہ گذشتہ سال پاکستان کے مختلف شہروں سے 306 پولیو وائرس سے متاثرہ کیسز سامنے آئے تھے۔ یہی نہیں، دنیا میں پولیو پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر پاکستان سے بیرون ممالک سفر کرنے والوں کو سفری پابندیاں بھی دیکھنی پڑیں۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی، پاکستان کے اعلی حکام اس امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ آئندہ چند برسوں میں پاکستان دنیا کے دیگر ممالک کی طرح 'پولیو فری' ملک بن جائےگا۔