عیدالفطر کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد بلوچستان کے تقریباً تمام اضلاع میں سیاسی سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں اور ملک اور صوبے کی بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما ضلعی سطح پر جلوس اور جلسے منعقد کر رہے ہیں۔
لیکن تاحال قومی سطح کی کسی بھی جماعت کے سربراہ نے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت صوبے کے کسی شہر میں کوئی جلسہ نہیں کیا ہے۔
پچیس جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں بلوچستان اسمبلی کی 65 میں سے 51 نشستوں پر براہ راست انتخاب ہوگا۔
باقی رہ جانے والی 14 نشستوں پر خواتین اور اقلیتی برادری کے ارکان کامیاب جماعتوں کی نشستوں کے تناسب سے منتخب ہوں گے۔
اسی طرح بلوچستان سے قومی اسمبلی کی 16 نشستوں پر بھی براہِ راست انتخاب ہوگا۔
انتخابات میں ایک ماہ رہ جانے کے باوجود ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں - پاکستان تحریکِ انصاف، پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت نے اب تک اس جنوب مغربی صوبے کی سیاست میں کسی خاص دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔
شاید اسی لیے ان جماعتوں کے صوبائی قیادت کی طرف سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے جاری کیے جانے والے ٹکٹوں پر پیدا ہونے والے اختلافات اور ان پارٹیوں کے مختلف دھڑوں میں تقسیم ہونے کے باوجود کسی مرکزی رہنما نے صوبائی تنظیموں کے معاملات میں بظاہر مداخلت نہیں کی ہے۔
دوسری طرف صوبے میں قوم پرستی کی سیاست کرنے والی جماعتیں بھی تاحال ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے میں کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔
بلوچستان کے بلوچ اکثریتی اضلاع میں اثر ور سوخ رکھنے والی تین جماعتیں - بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کو باہم اتحاد کرنے یا مشترکہ اُمیدوار سامنے لانے میں کئی مشکلات درپیش ہیں۔
اسی طرح پشتون اکثریتی اضلاع میں سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والی عوامی نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی بھی اتحاد یا مشترکہ اُمیدوار کھڑے کرنے کے ہدف سے کافی دور نظر آتی ہیں۔
صوبے میں بیشتر سیاسی جماعتوں کی حکمتِ عملی یہ نظر آرہی ہے کہ ضلعے کی سطح پر انتخابی ایڈجسٹمنٹ کی جائے اور اس سلسلے میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) نے ضلع خضدار کی سطح پر جمعیت علمائے اسلام (ف) اور نیشنل پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد کرلیا ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری سے بھی ملاقات کی ہے جس میں بلوچستان کی سطح پر بی این پی اور پی پی پی کے درمیان اتحاد پر بات کی گئی۔
بی این پی کے ذرائع کے مطابق ملاقات تسلی بخش رہی اور دونوں جماعتوں کے درمیان اتحاد کے کافی امکانات ہیں۔
اگر دونوں جماعتوں میں اتحاد ہوگیا تو دونوں کو مکران ڈویژن، لسبیلہ، کوئٹہ، جعفر آباد، نصیر آباد اور سبی اضلاع میں اس کا فائدہ ہوگا۔
سردار اختر مینگل اپنی پارٹی اور جے یو آئی (ف) کے درمیان ہونے والے اتحاد کو بھی صوبے کی سطح تک توسیع دینے کی بات کر چکے ہیں۔ لیکن اس بارے میں جے یو آئی (ف) کا ردِ عمل تاحال خاصا سرد ہے جس سے لگتا ہے کہ وہ اس اتحاد میں دلچسپی نہیں لے رہی۔
اختر مینگل بی این پی، اے این پی اور ہزارہ ڈیموکر یٹک پارٹی کے درمیان بھی اتحاد کا عندیہ دے چکے ہیں اور ان دونوں جماعتوں نے اس تجویز پر مثبت ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔
اس بات کا امکان ہے کہ یہ تینوں جماعتیں پیپلز پارٹی سے مل کر صوبے کی سطح پر کوئی انتخابی اتحاد قائم کر لیں۔
دوسری طرف حال ہی میں تشکیل پانے والی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) نے صوبے کی بیشتر سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں کو پریشان کر دیا ہے۔
سردار اختر مینگل نے اس پارٹی کے قیام کو انتخابات سے قبل دھاندلی قرار دیا ہے اور پیش گوئی کی ہے کہ صوبے میں اس پارٹی کی حکومت نہ بننے کی صورت میں یہ تنکوں کی طرح ہوا میں اُڑ جائے گی۔
دیگر بڑے سیاسی جماعتوں بشمول جے یو آئی (ف)، اے این پی، پشتونخوا میپ، مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما بھی اس پارٹی کی تشکیل کے بارے میں شبہات کا اظہار کر رہے ہیں اور اُسے 'کنگز پارٹی' قرار دے رہے ہیں جس سے یہ پتا چل رہا ہے کہ بلوچستان کی بیشتر سیاسی جماعتیں 'باپ' سے کافی پریشان ہیں۔
صوبے کی قد آور سیاسی شخصیات کی 'باپ' میں شمولیت کا سلسلہ بھی فی الحال تھم گیا ہے۔
صوبے کی سیاسی صورتِ حال کے پیشِ نظر تجزیہ کار اور کالم نگار جعفر خان ترین کا خیال ہے کہ 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کے بعد بلوچستان میں ایک بار پھر مخلوط حکومت تشکیل پائے گی اور اس میں دو یا اس سے زائد جماعتیں شامل ہوں گی۔