رسائی کے لنکس

آمر،ناقدین اور مخالفین کو دبانے کے لیے جابرانہ حربے استعمال کر رہے ہیں،فریڈم ہاؤس


پریس فریڈم ڈے فائل فوٹو
پریس فریڈم ڈے فائل فوٹو

جمعرات کے روز جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق حقوق انسانی کا دفاع کرنے والوں اور صحافیوں کی سیاسی قید و بند وسیع تر جمہوری پسپائی کی علامت ہے۔

فریڈم ہاؤس کی اس رپورٹ میں نکاراگوا، تنزانیہ، تھائی لینڈ، تیونس، ترکیہ اور وینیزویلا پر یہ کہتے ہوئیے توجہ مرکوز کی گئی ہے کہ یہ چھ ملک گزشتہ دو عشروں میں جمہوریت کے معاملے میں بہت پیچھے چلے گئے ہیں۔

رپورٹ کی شریک مصنفہ ایمی سلیپو وٹز نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فروغ پاتے آمرانہ نظام میں دنیا بھر میں بہت سارے جمہوریت مخالف لیڈرز موجود ہیں جو ناقدین اور مخالفین کو خاموش کر نے کے لیے جابرانہ ہتھکنڈوں کے حربے استعمال کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان بنیادی ہتھکنڈوں میں سے ایک سیاسی بنیادوں پر قید کی سزا ہے جو کہ معاشرے میں سب سے زیادہ آواز اٹھانے والے نقادوں کو منظر سے ہٹانے کی کوشش ہے۔

سلیپو وٹز نے جو واشنگٹن میں رہتی ہیں، کہا کہ ہم یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ سیاسی قید کس طرح جموریت کو نقصان پہنچنے کے معاملے پر اثر انداز ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ ایک ملک پہلے ایک سخت آمرانہ حکومت بن جائے اور پھر وہ حکومت اپنے مخالفین یا ناقدین کو جیلوں میں ڈالنا شروع کر دے۔ بلکہ وہ ایک دوسرے پر اثر ڈالتے ہیں، اس لیے سیاسی قید کا استعمال وسیع بنیادوں پر جمہورت کے زوال کو تقویت دے رہا ہے۔

اس رپورٹ میں جن رجحانات کی نشاندہی کی گئی ہے وہ ایک وسیع تر خطرے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اور فریڈم ہاؤس نے 2023 میں کہا تھا کہ عالمی آزادیاں مسلسل 17 برس سے زوال کی جانب مائل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق سیاسی قید اکثر بغاوتوں، انتخابات اور مظاہروں جیسے واقعات کے مطابق ہوتی ہیں۔

مثال کے طور پر 2014 میں تھائی لینڈ میں فوجی بغاوت کے بعد سینکڑوں صحافیوں، سیاست دانوں ، ماہرین تعلیم اور سرگرم کارکنوں کو نام نہاد رویے کی درستگی کے لیے طلب کیا گیا۔ تنزانیہ میں 2020 کے انتخابات سے پہلے اور نکارا گوا میں 2021 کے انتخابات سے پہلے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں۔

جنیوا میں اقوام متحدہ کے وینیزولا مشن نے تبصرے کے لیے وائس آف امریکہ کی ای میل کا کوئی جواب نہیں دیا نہ ہی واشنگٹن میں ان پانچ ملکوں کے سفارت خانوں نے کوئی جواب دیا جن کا رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیاسی قید و بند کے علاوہ دنیا بھر میں حکومتیں اپنے ناقدین کے خلاف دوسرے ہتھکنڈے بھی استعمال کرتی ہیں۔ اس میں ایک عمل کے ذریعے جسے سول ڈیتھ یا شہری موت کہا جاتا ہے ، ان کے لیے معمول کے مطابق زندگی گزارنا مشکل بنا دینا ہے۔

سول ڈیتھ کے جن ہتھکنڈوں کا رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے ان میں چار بنیادی حربوں میں فرد کے سفر پر کنٹرول، فرد کی فزیکل نگرانی، اسے ملازمت یا اسکول میں داخلے وغیرہ کے لیے بلیک لسٹ کر دینا اور اس کے اثاثے ضبط کر لینا یا ان پر کنٹرول حاصل کر لینا۔

سلیپووٹز نے کہا کہ اس طرح مذکورہ شخص کے گرد ایک نادیدہ قید خانہ تعمیر کر دیا جاتا ہے اور اس سے صرف ہدف بنائے گئے شخص ہی نہیں بلکہ اس کے خاندان اور قریبی لوگوں کے لیے شدید نفسیاتی دباؤ پیدا کر دیا جاتا ہے۔

رپورٹ کی شریک مصنفہ نے بتایا کہ اس کی ایک مثال 2016 میں اس وقت دیکھنے میں آئی جب ترکیہ میں ایک ہزار سے زائد ماہرین تعلیم اس کے بعد اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جب انہوں نے ایک کھلے خط پر دستخط کیے جس میں کردستان ورکرز پارٹی سے امن قائم کرنے کےُ لئے کہا گیا تھا جسے امریکہ دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق 2023 میں ترکی ان ملکوں میں شامل تھا جو صحافیوں کو قید کرنے میں بد ترین ریکارڈ کے حامل تھے۔ وہاں 13 صحافی قید تھے۔

سول ڈیتھ کی تازہ ترین مثال نکارا گوا میں ملتی ہے جہاں حکومت نے فروری 2023 میں نکاراگوا کے تین سو سے زیادہ لوگوں کو شہریت سے محروم کر کے ان کے اثاثے ضبط کر لیے۔

رپورٹ میں دنیا بھر میں جمہوری حکومتوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ وہ سیاسی قیدیوں کی رہائی کو اولین ترجیح دیں۔

فریڈم ہاؤس یہ بھی سفارش کرتا ہے کہ حکومتیں سیاسی قیدیوں کو قانونی فیس سمیت دیگر مالیاتی وسائل فراہم کریں۔

(لیام اسکاٹ، وی او اے نیوز)

فورم

XS
SM
MD
LG