بیش تر حلقوں کے نتائج موصول: حکومت بنانے کا چانس کس جماعت کے پاس زیادہ ہے؟
بھارتی میڈیا میں پاکستانی انتخابات پر تبصرے؛ ’فوجی جنرل عوام کو اب اتنے عزیز نہیں رہے‘
پاکستان کے انتخابات کی بھارتی میڈیا میں بھی خاصی کوریج ہوئی ہے اور بیش تر اخبارات نے اس پر ادارئیے اور تجزیے شائع کیے ہیں۔ کچھ اخبارات انتخابی نتائج کو عمران خان کی مقبولیت اور کامیابی قرار دے رہے ہیں تو کچھ اسٹیبلشمنٹ کی ناکامی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
بھارتی میڈیا ، انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد میں کامیابی پر یہ بھی کہہ رہا ہے کہ پاکستان کی فوج عوام کا موڈ سمجھنے میں ناکام رہی اور ان انتخابات کے بعد جو بھی حکومت بنے گی، اسے سخت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
نئی دہلی کے کثیر الاشاعت اخبار ’دی ہندوستان ٹائمز‘ نے اپنے اداریے کا عنوان دیا ہے ’مبہم انتخابات، غیر واضح فیصلہ۔‘
اخبار لکھتا ہے کہ آئندہ جو بھی حکومت قائم ہوگی اس کو عشروں سے جاری معاشی ابتری، معاشرے میں گہری تقسیم، دوبارہ ابھرنے والی شدت پسندی اور امریکہ جیسی کلیدی قوتوں کے ساتھ تعلقات کو استوار کرنے سمیت متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا۔
’ہندوستان ٹائمز‘ نے اداریے میں پی ٹی آئی پر انتخاب لڑنے پر پابندی، پی ٹی آئی کے امیدواروں کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے اور سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریوں کا بھی ذکر کیا۔
حکومت سازی کی کوششیں جاری: آزاد ارکان کے پاس کیا آپشنز ہیں؟
پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں آزاد امیدوار سب سے زیادہ تعداد میں کامیاب ہو کر سامنے آئے ہیں۔ سیاسی اور قانونی حلقوں میں ان آزاد امیدواروں کے مستقبل کے بارے میں تبصرے اور تجزیے ہو رہے ہیں۔
اگرچہ آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے زیادہ تر امیدوار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ ہیں تاہم ماضی کو دیکھتے ہوئے یہ قیاس بھی کیا جا رہا ہے کہ ان آزاد امیداروں کی بڑی تعداد پی ٹی آئی کے بجائے کسی اور جماعت میں بھی شامل ہو سکتی ہے۔
اس امکان کو اس وجہ سے بھی تقویت مل رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے سیاسی جماعتوں اور جیتنے والے آزاد اراکین کو مل کر حکومت بنانے کی دعوت دی ہے۔
یاد رہے کہ آزاد اراکین کو کامیابی کا نوٹی فکیشن جاری ہونے کے بعد تین روز میں کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہونا پڑتا ہے۔
نتائج میں دھاندلی کے الزامات؛ بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں کا احتجاج