پنجاب اسمبلی کا اجلاس، حلف برداری کے لیے نومنتخب ارکان کی آمد
پنجاب اسمبلی کا افتتاحی اجلاس آج ہو گا جس میں نومنتخب ارکان اسمبلی حلف اٹھائیں گے جب کہ اجلاس کی صدارت اسپیکر اسمبلی سردار سبطین خان کریں گے۔
اجلاس میں شرکت کے لیے نو منتخب ارکان کی آمد کا سلسلہ جاری ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کے کئی ارکان اسمبلی پہنچ چکے ہیں جب کہ پاکستان تحریکِ انصاف نے پنجاب اسمبلی کے باہر ’پُرامن احتجاج‘ کا اعلان کیا ہے۔
واضح رہے کہ عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نواز نے پنجاب اسمبلی میں سب سے زیادہ 137 نشستیں حاصل کی ہیں جب کہ اسمبلی میں آزاد امیدواروں کی تعداد 138 ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کا دعوٰی ہے کہ پنجاب اسمبلی کے تقریباً 20 آزاد ارکان نے ان کی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی ہے اور انہیں حکومت قائم کرنے کے لیے سادہ اکثریت حاصل ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے مریم نواز کو نامزد کیا گیا ہے۔
پنجاب اور سندھ میں مخصوص نشستوں کی تقسیم؛ پی ٹی آئی کو کچھ بھی نہ ملا
- By ایم بی سومرو
الیکشن کمیشن نے پنجاب اور سندھ اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر اراکین کی کامیابی کا نوٹی فکیشن جاری کیا ہے لیکن پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ کامیاب اُمیدواروں کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے باوجود مخصوص نشستیں نہیں مل سکیں۔
الیکشن کمیشن کے ذرائع نے بتایا کہ پنجاب اور سندھ اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر سنی اتحاد کونسل کا جو حصہ بنتا ہے اتنی نشستوں پر نوٹی فکیشن روک دیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن آج یہ فیصلہ کرے گا کہ پی ٹی آئی کی حمایت سے جیتنے والے منتخب اراکین کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے بعد انہیں مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں یا نہیں کیوں کہ سنی اتحاد کونسل کے ٹکٹ پر کوئی بھی اُمیدوار پنجاب اور سندھ میں الیکشن نہیں جیت سکا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ ہوا تو پنجاب، سندھ کے ساتھ باقی اسمبلیوں میں بھی ان کی مخصوص نشستوں کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا جائے گا۔
مولانا فضل الرحمٰن کا جارحانہ انداز سیاسی چال تھی، جو ناکام رہی: تجزیہ کار
پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات نے کچھ روایتی سیاسی حریفوں کے درمیان فاصلوں کو کم کر دیا ہے، تو کچھ روایتی اتحادیوں کے درمیان فاصلوں کو بڑھا دیا ہے۔
انتخابات سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مولانا فضل الرحمان اور عمران خان کی پارٹی کے درمیان گفتگو ہو گی مگر انتخابات کے بعد یہ انہونی ہوتے ہوئے دیکھی گئی۔
عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف نے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے اسلام آباد میں ملاقات کی اور انہیں مل کر حکومت بنانے کی پیشکش کی، مگر جے یو آئی کے سربراہ نے ان کی توقعات کے برعکس جواب دیتے ہوئے، اپوزیشن میں بیٹھنے کا عندیہ دیا تھا۔
جس کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے طویل مشاورت کے بعد حکومت بنانے اور پاور شیئرنگ کے فارمولے کو حتمی شکل دی، جس کا باضابطہ اعلان سابق صدر آصف زرداری، سابق وزیر اعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نے ایک پریس کانفرنس میں کیا۔
21 فروری کو جے یو آئی کے سیکرٹری جنرل مولانا غفور حیدری نے جے یو آئی کے وفد کے ساتھ مسلم لیگ ن کے سینیٹر اسحاق ڈار سے ملاقات کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملاقات میں عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ جے یو آئی اور ن لیگ کم ازکم بلوچستان میں مل کر حکومت بنا سکتی ہیں۔ اس پر اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم تو چاہتے تھے کہ مل کر چلا جائے لیکن مولانا آپ نے بہت دیر کر دی۔
سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا، ہم گزشتہ چار دن سے آپ سے رابطہ کر رہے تھے لیکن رابطہ نہیں ہوا۔ اب ہم نے پیپلزپارٹی کے ساتھ شراکت اقتدار کا معاہدہ کر لیا ہے۔ ن لیگ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے والی ہے۔ مگر میں جے یو آئی کی پیشکش کو قیادت کے سامنے رکھوں گا۔