امریکہ کے صدر لنڈن بی جونسن نے چوبیسویں ترمیم پر دستخط کرنے کے بعد کہا تھا کہ آج کے بعد کوئی اتنا غریب نہیں رہے گا کہ ووٹ بھی نہ ڈال سکے۔یہ 23جنوری 1964 کا دن تھا جب اس ترمیم کی منظوری سے اس وقت امریکہ کی متعدد جنوبی ریاستوں میں رائے دہی کے لیے عائد کی گئی ’پول ٹیکس‘ دینے کی شرط ختم کردی گئی ۔ یہ امریکہ میں ووٹنگ حقوق تک آسان رسائی کی جانب ایک اور قدم تھا۔
امریکہ کا آئین 1788 میں منظور ہوا تو اس میں تمام شہریوں کو ووٹ کا حق حاصل نہیں تھا۔ البتہ خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد 1870 میں پندرھویں آئینی ترمیم منظور کی گئی جس میں تمام مرد شہریوں کو ’نسل، رنگ یا غلامی کی سابقہ حالت‘ کی تفریق کے بغیر ووٹ کا حق دے دیا گیا تھا۔
لیکن آئینی طور پر ووٹ کا یہ حق تسلیم ہونے کے باوجود خواتین، سیاہ فام امریکیوں، تارکینِ وطن اور امیر و غریب طبقات کی تفریق برقرار رہی۔بیسیویں صدی میں امریکہ میں جب شہری حقوق اور بالخصوص رائے دہی کے لیے تحریک تیز ہوئی تو کئی قوانین میں تبدیلیاں آئیں۔ 1920 میں خواتین کو ووٹ کا حق ملا۔ 1965 میں ووٹنگ رائٹس بل کی منظوری کے بعد امریکہ میں حقِ رائے دہی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔
امریکہ کے آئین میں شہریوں کے یکساں حقِ رائے دہی کو تسلیم کیا گیا ہے لیکن آئینی و قانونی ماہرین کے مطابق انتظامی سطح پر بہت سے ایسے قواعد اور قوانین پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے اس حق تک رسائی میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ مختلف ریاستوں میں ووٹ کے لیے ٹیکس ادا کرنے کی شرط بھی ایسی ہی ایک رکاوٹ تھی جسے ’پول ٹیکس‘ کہا جاتا تھا۔
پول ٹیکس کی تاریخ
امریکن ہسٹری میوزیم کے مطابق امریکہ میں خانہ جنگی ختم ہونے کے بعد 1890 کے بعد سے کئی جنوبی ریاستوں میں سیاہ فام امریکی شہریوں کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنے کے لیے پول ٹیکس عائد کردیا گیا تھا۔
عام طور پر پول ٹیکس کو ووٹنگ کے حقوق اور امریکہ کی سیاہ فام آبادی کوحقِ رائے دہی سے محروم کرنے کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ لیکن نوآبادیاتی دور میں اس کا تعلق صرف ووٹنگ سے نہیں تھا۔
ٹیکس امور کی ماہر کیلی فلپس ایرب کے جریدے فوربز میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق 1690 کی دہائی تک ہر فرد پر عائد ہونے والے ٹیکس کو ’پول ٹیکس‘ کہا جاتا تھا۔ پول کا لفظ جرمن زبان سے آیا تھا جس کا معنی ’سر‘ ہے۔ یہ لفظ بعد میں فرد کے مفہوم میں استعمال ہونے لگا۔
کیلی فلپس کے مطابق انفرادی سطح پر لگائے گئے اس ٹیکس کا مقصد یہ تھا کہ ہر شخص چاہے کم آمدن رکھتا ہو یا زیادہ، اس کے پاس جائیداد اور اثاثے ہوں یا نہ ہوں، کچھ نہ کچھ ٹیکس ضرور ادا کرے۔ یہ فی کس ٹیکس نوآبادیاتی حکومتوں کی آمدن کا بڑا ذریعہ تھا۔
انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا کے مطابق انفرادی سطح پر وصول ہونے والے اس ٹیکس کا آغاز 1380 میں برطانیہ سے ہوا تھا جہاں کسانوں کی بغاوت کو قابو میں رکھنے کے لیے پہلی مرتبہ اس کا نفاذ کیا گیا تھا۔
ووٹنگ حقوق اور مالی حیثیت
امریکہ میں آئین کی منظوری کے بعد رائے دہندگان کی اہلیت کا فیصلہ ریاستوں پر چھوڑ دیا گیا تھا۔جب آئین منظور ہوگیا تو کئی ریاستوں نے ووٹ دینے کا حق صرف جائیداد رکھنے والے شہریوں تک محدود کر دیا۔
بعض ریاستوں نے جائیداد کے بجائے ووٹ دینے کے لیے’ پول ٹیکس ‘عائد کیا۔ اس طرح جائیداد رکھنے والوں کے ساتھ ووٹنگ پر عائد ٹیکس ادا کرنے والے شہری بھی حقِ رائے دہی کے اہل ہوگئے۔اس مد میں جمع ہونے والے ٹیکسوں کی شرح اور انہیں خرچ کرنے کا فیصلہ ریاستیں کیا کرتی تھیں۔
امریکہ میں آئین سے متعلق آگاہی فراہم کرنے والے پلیٹ فورم ’کونسٹی ٹیوشن سینٹر‘ کے مطابق 1870 میں جب پندرھویں ترمیم منظور ہوئی تو کئی ریاستوں نے حق رائے دہی کو محدود کرنے کے لیے پول ٹیکس متعارف کرایا۔فلوریڈا سمیت دیگر سابق کنفیڈریٹ ریاستوں نے ووٹنگ قوانین میں تبدیلیاں شروع کر دی تھیں۔
کنفیڈریٹ امریکہ کی وہ 11 ریاستیں تھیں جنہوں نے 1860 میں علیحدگی کا اعلان کیا تھا جس کے بعد امریکہ میں تقریباً پانچ برسوں تک خانہ جنگی جاری رہی تھی۔امریکہ کی شمالی ریاستیں ان کی حریف تھیں جن سے ان کے اختلاف کی بنیادی وجہ غلامی کا مسئلہ تھا۔ کنفیڈریٹ ریاستیں غلامی برقرار رکھنے کی حامی تھیں۔ 1865 میں خانہ جنگی ک خاتمہ ہوا تو کئی ریاستوں میں پول ٹیکس بھی ختم کردیا گیا لیکن خصوصا جنوبی ریاستوں میں سے الاباما، آرکنسا، مسی سپی، ٹیکساس اور ورجینیا نے یہ ٹیکس برقرار رکھا۔
کسانوں کی تحریک اور پول ٹیکس
انسائیکلو پیڈیا آف بریٹینکا کے مطابق امریکہ میں پول ٹیکس کو سیاہ امریکیوں کو حقِ رائے دہی سے محروم رکھنے کے حربے کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن یہاں بھی ابتدا میں اسے کم آمدن رکھنے والے کسانوں کی تحریک کا اثر کم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
امریکہ کی وسط مغربی اور جنوبی ریاستوں کے کسان 1880 کی دہائی میں فصلوں کے نقصان، پیدوار کی کمی قیمتوں اور قرض کے حصول میں مشکلات جیسے مسائل پر آواز بلند کرنے کے لیے منظم ہوئے اور اسی دور میں انہوں نے کسان اتحاد تشکیل دیے۔
سن 1892 میں یہ یہ کسان اتحاد ’پاپولسٹ‘ یا ’پیپلز پارٹی‘ کے طور پر منظم ہوگئے۔ یہ پارٹی انتخابی سیاست میں ڈیموکریٹ پارٹی کے لیے چیلنج ثابت ہورہی تھی۔انتخابی میدان میں بڑھتی ہوئی مسابقت کی وجہ سے دونوں پارٹیوں کے لیے سیاہ فاموں کے ووٹ اہمیت اختیار کرگئے تھے۔
پاپولسٹ پارٹی مقامی سطح پر چند کامیابیاں حاصل کرنے میں کامیاب ضرور رہی لیکن صرف زراعت اس کے ایجنڈے کا محور تھی اس لیے یہ پارٹی ملک گیر سطح پرپذیرائی حاصل نہیں کرپائی۔
جن ریاستوں میں پاپولسٹ پارٹی کو مقبولیت حاصل ہورہی تھی وہاں بھی انتخابات میں کامیابی کے بعد ڈیموکریٹس نے ان کا سیاسی اثر کم کرنے کے لیے ریاستی قوانین میں ترامیم کرکے ووٹنگ کے دائرے کو محدود کرنا شروع کردیا۔
پول ٹیکس کی شرط عائد کرنا بھی انہی کوششوں میں شامل تھا۔ ووٹ سے پہلے ٹیکس کی ادائیگی کی اس شرط کے نتیجے میں سیاہ فام امریکی اور کئی غریب سفید فام بھی رائے دہی کے حق سے محروم ہوگئے۔
پول ٹیکس سے کیا اثر ہوا؟
کونسٹی ٹیوشن سیںٹر کے مطابق ووٹنگ کے لیے مختلف شرائط کی وجہ سے بالخصوص سیاہ فام امریکیوں میں ووٹر رجسٹریشن اور ووٹ ڈالنے کے رجحان میں غیر معمولی کمی آئی۔ عام طور پر یہ ٹیکس ایک یا دو ڈالر ہوا کرتا تھا جو موجودہ دور کے حساب سے اندازاً 20 سے 40 ڈالر بنتا ہے۔ لیکن اس دور کے غریب ووٹرز کے لیے اس کی ادائیگی بھی بوجھ تھی۔
کئی ریاستوں میں عدم ادائیگی کی صورت میں یہ ٹیکس آئندہ برس واجبات میں شامل ہوجاتا تھا اور واجب الادا رقم شرح سود کے اعتبار سے بڑھتی رہتی تھی۔
ٹیکس امور کی ماہر کیلی فلپس ایرب کے مطابق ریاستوں نے پول ٹیکس وصول کرنے کے اپنے اپنے طریقے بنا رکھے تھے۔ لیکن عام طور پر ووٹ رجسٹریشن کے وقت اس کی ادائیگی کرنا لازم تھی یا اس کی ادائیگی کی رسید طلب کی جاتی تھی۔
الیکشن آفیسر کو کسی مرحلے پر پول ٹیکس کی ادائیگی کی رسید طلب کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ ٹیکس کی ادائیگی مزید مشکل بنانے کے لیے مزید کئی شرائط عائد کی گئی تھیں۔ مثلاً یہ صرف نقد وصول کیا جاتا تھا اور اسے بعض مخصوص مقامات ہی پر جمع کیا جاتا تھا۔ کئی مرتبہ اس کی وصولی پولیس تھانوں میں بھی کی جاتی تھی۔
قانونی جنگ
امریکہ میں مختلف طبقات کو ووٹ کا حق حاصل کرنے کے لیے سیاسی جدوجہد کے ساتھ قانونی جنگ بھی لڑنا پڑی۔ پول ٹیکس ختم کرنے کی کوششوں کا آغاز بھی عدالتوں سے ہوا۔
امریکہ کی سپریم کورٹ نے ابتدا میں پول ٹیکس کو آئین کے مطابق قرار دیا تھا۔ 1937 میں ’بریڈلو بنام سٹلز کیس‘ میں سپریم کورٹ نے جارجیا سے تعلق رکھنے والے ایک سفید فام ووٹر کا یہ دعوی مسترد کر دیا تھا کہ پول ٹیکس آئین میں دیے گئے مساوی حقوق کے خلاف ہے۔ اسی طرح 1951 میں ریاست ورجینیا میں پول ٹیکس کےخلاف درخواست مسترد کر دی گئی تھی۔
سن 1962 تک زیادہ تر ریاستوں میں پول ٹیکس ختم ہو گیا تھا البتہ پانچ ریاستوں؛ الاباما، آرکنسا، مسی سپی، ٹیکساس اور ورجینیا نے اسے برقرار رکھا ہواتھا۔ان ریاستوں میں سے بعض میں پول ٹیکس کے لیے شرائط نرم کردی گئی تھیں لیکن اس کے باوجود یہ ووٹنگ کے حق تک رسائی میں ایک رکاوٹ تصور ہوتی تھیں۔
شہری حقوق کی تحریک تیز ہوئی تو صدر جان ایف کینیڈی نے 1962 میں اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں پول ٹیکس ختم کرنے کے لیے قانون سازی کرنے کا اعلان کیا اور 27 اگست 1962 کو کانگریس نے مرکزی انتخابات میں پول ٹیکس ختم کرنے کے لیے آئین کی چوبیسویں ترمیم منظور کر لی۔
ریاستوں سے توثیق کے بعد 23 جنوری 1964 کو یہ ترمیم امریکہ کے آئین کا حصہ بن گئی۔ جس کے بعد مرکزی انتخابات میں پول ٹیکس کی شرط ختم ہوگئی اور دو برس بعد سپریم کورٹ نے ریاستی انتخابات سے بھی اس کا خاتمہ کر دیا۔
اس قانون سازی اور عدالتی فیصلے کے نتیجے میں ووٹنگ کو کسی بھی قسم کی ٹیکس ادائیگی سے مشروط کرنے کی گنجائش ختم کر دی گئی۔
کیا پول ٹیکس اب بھی وجود رکھتا ہے؟
امریکن بار ایسوسی ایشن کے مطابق آج بھی کئی ایسی پابندیاں ہیں جو ووٹ کے حق کو محدود کرتی ہیں اور ان رکاوٹوں کا موازنہ نوآبادیاتی دور کے ’پول ٹیکس‘ سے کیا جاسکتا ہے۔ ان کے مطابق چوبیسویں ترمیم کے بعد بھی کئی ریاستوں میں سرکاری طور پر عائد جرمانے یا فیس ادا نہ کرنے والے شہریوں کو ووٹ کا حق نہیں دیا جاتا جسے بار ایسوسی ایشن ’پول ٹیکس‘ جیسی ہی ایک رکاوٹ قرار دیتی ہے۔
کونسٹی ٹیوشن سینٹر کے مطابق اگرچہ 23 جنوری 1964 کو چوبیسویں ترمیم آئین میں شامل ہونے کے بعد ووٹ دینے کے لیے براہ راست عائد ٹیکس ادائیگی کی شرط ہوگئی تھی لیکن ووٹر کی شناخت کے لیے درکار دستاویزات پر آنے والی لاگت کو بھی بالواسطہ طور پر پول ٹیکس کے زمرے میں آتی ہے۔