پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ بالا 'سینیٹ' کی 52 نشستوں پر نئے سینیٹرز کے انتخاب کے لیے ہفتہ کو چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے اراکین ووٹ ڈال رہے ہیں۔
پولنگ کا عمل صبح نو بجے شروع ہوا جو بغیر کسی وقفے کے شام چار بجے تک جاری رہے گا۔
الیکشن کمیشن کے مطابق خالی ہونے والی 52 نشستوں کے لیے 135 امیدوار انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں جن کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی رکھنے والی دیگر جماعتوں سے ہے۔
انتخاب میں ایک بڑی تعداد آزاد امیدواران کی بھی ہے جن میں وہ امیدوار بھی شامل ہیں جنہیں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی طرف سے نامزد کیا گیا تھا لیکن سپریم کورٹ کی طرف سے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو پارٹی صدارت کے لیے نااہل قرار دیے جانے کے بعد الیکشن کمیشن نے انہیں آزادانہ حیثیت میں سینیٹ انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دے دی تھی۔
ہفتہ کو ہونے والے انتخاب میں پنجاب اور سندھ سے ایوانِ بالا کی 12، 12 نشستوں پر پولنگ ہو رہی ہے جن میں سات، سات جنرل نشستیں، دو، دو ٹیکنوکریٹ اور دو، دو خواتین کی نشستیں جب کہ ایک، ایک اقلیتی افراد کے لیے مختص ہے۔
خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے 11، 11 سینیٹروں کو منتخب کیا جائے گا جن میں سات جنرل نشستیں، دو ٹیکنوکریٹ اور دو خواتین کی نشستیں شامل ہیں۔
قبائلی علاقے سے چار اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے دو سینیٹروں کا انتخاب بھی عمل میں آئے گا۔
پاکستان الیکشن کمیشن نے ان انتخابات میں ووٹنگ کے عمل کو خفیہ رکھنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔
الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق کوئی ووٹر نہ تو اپنا ووٹ ظاہر کرے گا اور نہ ہی وہ اپنے بیلٹ پییر کو پولنگ اسٹیشن سے باہر لے جائے گا۔ ایسا کرنے کی صورت میں ریٹرننگ افسر ایسے ووٹر کے بیلٹ پیپر کو منسوخ کر دے گا۔
واضح رہے کہ چاروں صوبوں کی متعلقہ صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اپنے اپنے صوبے سے نئے سینیٹروں کو منتخب کریں گے جبکہ وفاقی دارالحکومت سے سینٹروں کو قومی اسمبلی کے اراکین منتخب کریں گے۔ فاٹا کے سینیٹروں کا انتخاب فاٹا سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے اراکین کریں گے۔
پولنگ کے عمل کے دوران سکیورٹی کے سخت اقدامات اور پولنگ اسٹیشنوں کے باہر رینجرز اور ایف سی (فرنٹیئر کانسٹیبلری) کے اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ 104 نشستوں پر مشتمل ایوانِ بالا کے 11 مارچ کو ریٹائر ہونے والے نصف سینیٹرز کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں سے ہے جب کہ ان میں بعض آزاد سینیٹرز بھی شامل ہیں جو اپنی رکنیت کی چھ سال کی مدت پوری ہونے کے بعد ذمہ داریوں سے سبکدوش ہورہے ہیں۔
ریٹائر ہونے والے سینیٹروں میں سب سے زیادہ تعداد حزبِ مخالف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ارکان کی ہے جس کے 18 سینیٹرز ریٹائر ہورہے ہیں۔ پی پی پی کے ریٹائر ہونے والے سینیٹرز میں سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی بھی شامل ہیں۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے ریٹائر ہونے والے سینیٹروں کی تعداد 9 ہے۔
دوسری طرف پاکستان الیکشن کمیشن نے وضاحت کی ہے کہ صحافیوں کو ہفتے کو ہونے والے سینیٹ انتخاب کی کوریج کی اجازت ہوگی۔
قبل ازیں یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ سینیٹ انتخاب کی کوریج کے لیے قومی اسمبلی اور متعلقہ صوبائی اسمبلیوں کی پریس گیلری میں صحافیوں کو جانے سے روک دیا گیا تھا جس پر میڈیا کے نمائندوں اور دیگر حلقوں کی طرف سے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس پابندی کو ہٹانے کا مطالبہ سامنے آیا تھا۔
الیکشن کمیشن کی طرف سےجمعے کو جاری ایک بیان کے مطابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار محمد رضا نے اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے لیے میڈیا کوریج پر عائد پابندی کو فوری طور ہٹا دیا ہے۔