امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے منگل کے روز ریاض میں سعودی فرمانروا شاہ سلمان سے ملاقات کی۔
محکمہٴ خارجہ کی ترجمان ہیدر نوئرٹ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’مائیک پومپیو نے امریکہ کے ساتھ سعودی عرب کی ٹھوس ساجھے داری پر شاہ کا شکریہ ادا کیا‘‘۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’امریکی وزیر خارجہ نے شاہ سلمان کے ساتھ کئی علاقائی اور باہمی امور پر گفتگو کی‘‘۔ وزیر خارجہ نے ’’جمال خشوگی کے لاپتا ہونے کی مفصل، شفاف اور بر وقت تفتیش کی حمایت کے اظہار پر شاہ کا شکریہ ادا کیا‘‘۔
بعد ازاں، امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ریاض میں سعودی وزیر خارجہ الجبیر سے ملاقات کی۔
اس سے قبل، امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پہنچے، جہاں اُنھوں نے سعودی قیادت کے ساتھ استنبول سے لاپتا ہونے والے سعودی صحافی جمال خشوگی کے معاملے پر بات چیت کی۔
پومپیو منگل کی صبح ریاض پہنچے جہاں ان کا استقبال ان کے سعودی ہم منصب عادل الجبیر نے کیا۔ بعد ازاں امریکی وزیر ہوائی اڈے سے سیدھا سعودی فرمانروا شاہ سلمان سے ملاقات کے لیے شاہی محل روانہ ہوئے۔
پومپیو کی منگل کی شب سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات بھی متوقع ہے جن کی اقتدار پر گرفت مضبوط ہونے کے بعد خشوگی کو گزشتہ سال سعودی عرب سے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنا پڑی تھی۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو شاہ عبداللہ سے ٹیلی فون پر گفتگو کے بعد مائیک پومپیو کو فوری طور پر ریاض بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔
خشوگی سعودی حکومت خصوصاً ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے کڑے ناقد تھے اور سعودی حکومت کی انتقامی کارروائیوں کے خوف سے ایک سال قبل امریکہ منتقل ہوگئے تھے۔
وہ دو اکتوبر کو بعض دستاویزات کے حصول کے لیے استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے گئے تھے جس کے بعد سے انہیں باہر آتے نہیں دیکھا گیا۔
ترک حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ خشوگی کو سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا جس کے بعد ان کی لاش بھی ٹھکانے لگادی گئی تھی۔
سعودی حکام نے ابتداً اس الزام کو مسترد کیا تھا۔ لیکن پیر کو بعض امریکی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا کہ سعودی حکام خشوگی کے قونصل خانے میں "غلطی سے قتل" کا اعتراف کرنے والے ہیں۔
امریکی ذرائع ابلاغ نے پیر کو بعض خفیہ ذرائع کے حوالے سے کہا تھا کہ ممکنہ طور پر سعودی حکومت یہ مؤقف اختیار کرے گی کہ خشوگی قونصل خانے میں دورانِ تفتیش تشدد سے ہلاک ہوئے یا انہوں نے خود کشی کرلی۔
یہ اطلاعات بھی ہیں کہ سعودی حکومت اس تفتیش اور تشدد کا الزام بعض افراد پر عائد کردے گی جنہوں نے سعودی حکام کے بقول سرکاری اجازت کے بغیر اپنے تئیں خشوگی سے پوچھ گچھ کی۔
پیر کو سعودی شاہ سے خشوگی کے معاملے پر ٹیلی فون پر گفتگو کے بعد صدر ٹرمپ نے بھی عندیہ دیا تھا کہ خشوگی کے مبینہ قتل میں ’’خودسر عناصر‘‘ کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔
لیکن امریکی صدر نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا تھا کہ انہوں نے یہ خیال کس ثبوت یا رائے کی بنیاد پر ظاہر کیا ہے۔
امریکی صدر نے کہا تھا کہ سعودی شاہ نے انہیں بتایا ہے کہ انہیں خشوگی کی گمشدگی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔
سعودی حکام نے ترک حکومت کو خشوگی کی گمشدگی کی مشترکہ تحقیقات کی بھی پیشکش کی ہے جسے ترکی نے قبول کرلیا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان معاملے کی تحقیقات میں تعاون پر اتفاق کے بعد منگل کو ترک حکام نے استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے کا معائنہ کیا۔
ترک حکام نے خشوگی کی گمشدگی کے فوراً بعد ہی سعودی عرب سے ترک پولیس کو قونصل خانے تک رسائی دینے کا مطالبہ کیا تھا جس کی اجازت بظاہر اتوار کی شب صدر رجب طیب ایردوان اور شاہ سلمان کے درمیان فون پر ہونے والی بات چیت کے بعد دی گئی۔
ترک خبر رساں ادارے 'اناطولیہ' کے مطابق منگل کو سعودی قونصل خانے کا معائنہ کرنے والی ترک ٹیم میں خشوگی کی گمشدگی کی تحقیقات کرنے والی ترک ٹیم کے ارکان، پولیس افسران اور فارنسک ماہرین شامل تھے۔
ترک ذرائع ابلاغ نے خبر دی ہے کہ سعودی حکام نے ترک ٹیم کو قونصل خانے کے بعض حصوں کے معائنے کی اجازت نہیں دی لیکن انہیں سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ تک رسائی دی گئی ہے۔
خشوگی کی گمشدگی کے معاملے پر سعودی عرب پر بین الاقوامی دباؤ بڑھ رہا ہے اور اس کے قریبی اتحادی امریکہ میں بھی کئی ارکانِ کانگریس نے ٹرمپ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خشوگی کے قتل کی تصدیق کی صورت میں سعودی عرب کے خلاف سخت اقدامات کرے۔