افغانستان میں تشدد میں کمی آنے پر رواں ماہ ہی امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کا امکان ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' نے افغانستان کے حکومتی اور مغربی ملک کے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگر افغان طالبان تشدد کی راہ ترک کر دیں تو فریقین کے درمیان رواں ماہ کے اختتام پر ہی امن معاہدہ ہو سکتا ہے۔
سفارتی ذرائع کہتے ہیں کہ امن معاہدے کے تحت افغانستان سے غیر ملکی فوج کے انخلا کا معاملہ بھی طے ہو سکتا ہے۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے بھی اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اُنہیں قطر میں افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان جاری مذاکرات میں 'اہم پیش رفت' سے آگاہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں اُس وقت سے تعطل تھا جب سے امریکہ کی جانب سے زور دیا جا رہا تھا کہ طالبان افغانستان میں عسکری کارروائیاں ختم اور تشدد میں کمی لائیں۔
البتہ طالبان کی جانب سے اس پر مثبت ردِعمل سامنے نہیں آ رہا تھا۔ اب امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ افغانستان میں پُرتشدد کارروائیوں میں کمی آنے اور فریقین کے درمیان امن معاہدے کا امکان ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان میں 13 ہزار کے قریب امریکی فوجی موجود ہیں۔ 2001 میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر حملہ کر کے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔
مائیک پومپیو کا افغان قیادت سے رابطہ
اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کے نمائندے جلیل اختر کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے افغان قیادت کو امریکہ اور طالبان میں جاری مذاکرات میں ہونے والی 'پیش رفت' سے آگاہ کیا ہے۔
وزیر خارجہ نے اس حوالے سے افغانستان کے صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کو الگ الگ فون کیا اور انہیں طالبان سے ہونے والے مذاکرات میں پیش رفت سے آگاہ کیا۔
تجزیہ کار مائیک پومپیو اور افغان قیادت کے درمیان رابطوں کو اہم قرار دیے رہے ہیں۔ بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار حسن عسکری کے مطابق اگر طالبان تشدد کو روکنے پر تیار ہو جاتے ہیں تو یہ ایک بڑی پیش رفت ہو گی۔ اُن کے بقول، امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پانے کے امکانات زیادہ بہتر ہو گئے ہیں۔
حسن عسکری کا کہنا ہے کہ کابل حکومت بھی ایسے معاہدے کے حق میں ہو گی جس سے پہلے اگر طالبان تشدد میں کمی کرنے پر راضی ہو جاتے ہیں۔
ان کے بقول، طالبان اور امریکہ کے درمیان معاملات طے پانے کے بعد بھی بین الافغان مذاکرات کے آئندہ مرحلے میں چیلنج درپیش ہو سکتے ہیں۔
افغان امور کے تجزیہ کار اور پاکستان کے سابق سفارت کار رستم شاہ مہمند کے مطابق اگر دوحہ میں جاری بات چیت کے نتیجے میں امن معاہدہ طے پا بھی جاتا ہے، تب بھی بین الافغان مذکرات کا مرحلہ اتنا آسان نہیں ہو گا۔
ان کے بقول، بین الافغان مذاکرات میں طالبان کی طرف سے ایک عبوری سیاسی 'سیٹ اپ' کا مطالبہ سامنے آ سکتا ہے اور کابل حکومت اس مطالبے کی مخالفت کر سکتی ہے۔ اس تناظر میں اُن کے بقول کابل حکومت کو اس بات پر راضی کرنا ایک مشکل کام ہو گا۔
افغان صدر اشرف غنی نے منگل کو اپنے ایک ٹوئٹ میں امریکی وزیر خارجہ سے ہونے والی گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مائیک پومپیو نے اُنہیں فون کر کے امن معاہدے پر جاری مذاکرات میں 'نمایاں پیش رفت' سے آگاہ کیا ہے۔
افغان صدر کے مطابق امریکی وزیرِ خارجہ نے اُنہیں بتایا کہ طالبان نے تشدد میں نمایاں کمی کی تجویز بھی دی ہے۔
طالبان کی تشدد میں نمایاں کمی کی تجویز کو صدر غنی نے خوش آئند قرار دیا۔ تاہم اشرف غنی نے اس تجویز کی مزید تفصیل بیان نہیں کی.
ادھر افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے بھی کہا ہے کہ امریکہ کے وزیر خارجہ کے ساتھ منگل کو فون پر ہونے والی گفتگو میں طالبان کے ساتھ جاری بات چیت کے بارے میں تبادلہ خیال ہوا ہے۔
عبداللہ عبداللہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اس توقع کا اظہار کیا کہ تشدد میں کمی اور طالبان کے ساتھ جاری بات چیت کے نتیجے میں امن معاہدہ طے پا سکتا ہے جس سے بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے ۔
امریکی وزیر خارجہ نے افغان قیادت سے ایک ایسے وقت میں بات کی ہے کہ جب حال ہی میں امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے دوحہ میں طالبان کے اعلیٰ نمائندے ملا عبدالغنی برادر سے ملاقات کی تھی۔
طالبان ترجمان سہیل شاہین کے مطابق ملاقات میں امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات کے نتائج کے حوالے سے اہم معاملات اور مستقبل کے اقدامات کے بارے میں گفتگو کی گئی۔
اگرچہ امریکہ کے وزیر خارجہ سے ہونے والی گفتگو کے بعد سامنے آنے والے بیانات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن سمجھوتہ طے پانے کے امکانات ہیں تاہم ابھی تک باضابطہ طور پر امریکہ یا طالبان کی طرف سے اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
یادر ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ایک سال سے زائد عرصے سے غیر ملکی فوج کے انخلا، امن سمجھوتے، بین الافغان امن مذاکرات، جنگ بندی اور افغانستان کے مستقبل کے سیاسی نظام کے معاملے پر بات چیت جاری ہے۔
تاہم امریکہ عہدیدار قبل ازیں یہ واضح کرچکے ہیں کہ امن سمجھوتہ طے پانے کے لیے طالبان کا تشدد میں نمایاں کمی کرنا ضروری ہے تاہم طالبان کی طرف سے ابھی تک اس بات کا کوئی عندیہ نہیں دیا گیا کہ وہ تشدد میں پائیدار اور نمایاں کمی پر تیار ہیں تاہم وہ محدود حد تک تشدد میں کمی کی پیشکش کر چکے ہیِں۔