واشنگٹن —
قرض کی حد میں اضافے کےاختیارات کےحوالے سے، عین ممکن ہے کہ امریکہ کوئی پہلا قدم اٹھانے ہی والا ہو، تاکہ اِس بات کو یقینی بنایا جائے کہ مالی ادائگیوں کے معاملے پر نادہندگی سے بچا جاسکے۔
وائٹ ہاؤس نے جمعرات کے دِن کہا کہ ایوان نمائندگان کے ری پبلیکن قانون سازوں کی طرف سے اس پیش کش پر صدر براک اوباما کا حوصلہ بڑھا ہے کہ چھ ہفتے کے لیے 16.7 ٹرلین ڈالر کے قرضے کے حصول کی حد کے اختیارات میں اضافے پر رضامند ہوا جاسکتا ہے، جس کے لیے ایک ہفتے کی مدت باقی رہ گئی ہے۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو اُس وقت، واجب الادا ادائگیاں نہیں ہو پائیں گی۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان، جے کارنی نے کہا ہے کہ ایوان کے ری پبلیکن ارکان کی طرف سے دی گئی یہ پیش کش، جِس میں ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر کے کئی سخت ترین مخالفیں شامل ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ امریکہ کو ہرگز نادہند نہیں بننا چاہیئے۔
کارنی کے بقول، صدر کو اس بات پر خوشی ہے کہ ایوان میں دانشمندی والی سوچ بڑھ رہی ہے، کم از کم یہ بات تسلیم کی جانے لگی ہے کہ نادہندگی کی راہ اپنانے کی کوئی گنجائش نہیں۔
کارنی نے کہا کہ اس بات کا امکان ہے کہ مسٹر اوباما قومی قرضے کی حد میں توسیع کے کسی قلیل مدتی اقدام کو تسلیم کر لیں، اُس وقت تک کہ اِس کے ساتھ کوئی شرائط شامل نہ کی جائیں۔
تاہم، امریکہ کا دوسرا متنازع مالی اور سیاسی مسئلہ، یعنی 10 دِٕنوں سے جاری کاروبار حکومت کی جزوی بندش ابھی تصفیہ طلب ہے۔
اسپیکر، جان بینر نے، جو ایوانِ نمائندگان میں ری پبلیکن پارٹی کے قائد ہیں، اپنے ساتھیوں سے کہا ہے کہ وہ ملک کے قرضے کی حد کو 22 نومبر تک توسیع دینے کی تجویز کی حمایت کریں، تاکہ تب تک کے لیے ملک کو اتنی رقوم دستیاب ہوں کہ اپنے بِل ادا کر سکے، اس شرط پر کہ مسٹر اوباما حکومتی اخراجات کے معاملات پر مذاکرات پر تیار ہوں، تاکہ ری پبلیکنز شٹ ڈاؤن کے خاتمے کے معاملے کو تسلیم کرلیں۔
بینر نے کہا ہے کہ جمعرات کی رات وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات کے دوران وہ صدر کو شٹ ڈاؤن کے خاتمے سے متعلق پیش کش کریں گے۔ تاہم، اُنھوں نے کوئی تفصیل نہیں بتائی۔
وائٹ ہاؤس نے جمعرات کے دِن کہا کہ ایوان نمائندگان کے ری پبلیکن قانون سازوں کی طرف سے اس پیش کش پر صدر براک اوباما کا حوصلہ بڑھا ہے کہ چھ ہفتے کے لیے 16.7 ٹرلین ڈالر کے قرضے کے حصول کی حد کے اختیارات میں اضافے پر رضامند ہوا جاسکتا ہے، جس کے لیے ایک ہفتے کی مدت باقی رہ گئی ہے۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو اُس وقت، واجب الادا ادائگیاں نہیں ہو پائیں گی۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان، جے کارنی نے کہا ہے کہ ایوان کے ری پبلیکن ارکان کی طرف سے دی گئی یہ پیش کش، جِس میں ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر کے کئی سخت ترین مخالفیں شامل ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ امریکہ کو ہرگز نادہند نہیں بننا چاہیئے۔
کارنی کے بقول، صدر کو اس بات پر خوشی ہے کہ ایوان میں دانشمندی والی سوچ بڑھ رہی ہے، کم از کم یہ بات تسلیم کی جانے لگی ہے کہ نادہندگی کی راہ اپنانے کی کوئی گنجائش نہیں۔
کارنی نے کہا کہ اس بات کا امکان ہے کہ مسٹر اوباما قومی قرضے کی حد میں توسیع کے کسی قلیل مدتی اقدام کو تسلیم کر لیں، اُس وقت تک کہ اِس کے ساتھ کوئی شرائط شامل نہ کی جائیں۔
تاہم، امریکہ کا دوسرا متنازع مالی اور سیاسی مسئلہ، یعنی 10 دِٕنوں سے جاری کاروبار حکومت کی جزوی بندش ابھی تصفیہ طلب ہے۔
اسپیکر، جان بینر نے، جو ایوانِ نمائندگان میں ری پبلیکن پارٹی کے قائد ہیں، اپنے ساتھیوں سے کہا ہے کہ وہ ملک کے قرضے کی حد کو 22 نومبر تک توسیع دینے کی تجویز کی حمایت کریں، تاکہ تب تک کے لیے ملک کو اتنی رقوم دستیاب ہوں کہ اپنے بِل ادا کر سکے، اس شرط پر کہ مسٹر اوباما حکومتی اخراجات کے معاملات پر مذاکرات پر تیار ہوں، تاکہ ری پبلیکنز شٹ ڈاؤن کے خاتمے کے معاملے کو تسلیم کرلیں۔
بینر نے کہا ہے کہ جمعرات کی رات وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات کے دوران وہ صدر کو شٹ ڈاؤن کے خاتمے سے متعلق پیش کش کریں گے۔ تاہم، اُنھوں نے کوئی تفصیل نہیں بتائی۔