گزشتہ فروری میں ہونے والے پلوامہ خود کش حملے سے بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات معمول پر لانے اور دو طرفہ بات چیت شروع کرنے کے امکانات معدوم ہوگئے۔ دونوں ملکوں میں اس واقعے کے نتیجے میں ہونے والی فضائی کارروائیوں کے حوالے سے الگ الگ بیانیے سامنے آئے۔
بھارت میں عام انتخابات کے تناظر میں برسر اقتدار بی جے پی حکومت نے پاکستان کے خلاف مزید کارروائیاں کرنے اور اسے ’’سبق سکھانے‘‘ اور دنیا بھر میں ’’تنہا کر دینے‘‘ کا عندیہ دیا، جبکہ پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے بھارت کی طرف سے مزید کسی فوجی کارروائی کو ’’خارج از امکان قرار نہ دیتے ہوئے‘‘ بھارت کو بات چیت کے ذریعے دو طرفہ مسائل حل کرنے کی پیشکش کی۔
تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ ان واقعات کے بعد سامنے آنے والے سکوت کے باعث خدشات بدستور موجود ہیں اور کسی بھی وقت کوئی بھی نیا واقعہ پیش آ سکتا ہے جس کے باعث صورت حال بے قابو بھی ہو سکتی ہے۔
بوسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عادل نجم اسے ایک نئی سطح کی ’’غیر معمولی صورت حال‘‘ قرار دیتے ہیں جو پہلے سے موجود ’’غیر معمولی صورت حال‘‘ سے یکسر مختلف ہے۔
وائس آف امریکہ سے خصوصی بات چیت میں اُنہوں نے کہا کہ حالات کشیدہ ہونے کے باوجود جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ہمسایہ ممالک نے اب تک انتہائی ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ان دنوں جبکہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی طرف سے شدید دباؤ اور معاشی بحران کا سامنا ہے تو دوسری جانب بھارت میں آئندہ ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے مشکلات درپیش ہیں۔
عادل نجم کا کہنا ہے کہ ’’اس صورت حال میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایک چھوٹا سا واقعہ بھی دونوں ملکوں کے درمیان محاذ آرائی کو ایک ایسی سطح پر لے جا سکتا ہے جہاں سے واپسی کے تمام راستے بند ہو جاتے ہیں‘‘۔
بقول ان کے، ’’ایسی صورت حال میں بھارت اور پاکستان کے درمیان کسی کرائسس یا بحران کو مینج کرنے کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔ اور، یہ انتہائی خطرناک صورت حال ہے‘‘۔
اسلام آباد سے معروف سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ اس وقت بھارت اور پاکستان کے تعلقات بر صغیر کی تقسیم کے وقت سے اب تک سب سے زیادہ کشیدہ ہیں اور دونوں ممالک میں میڈیا نے اپنی جارحانہ رپورٹنگ اور تجزیوں سے لوگوں کے جذبات کو ابھارا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت مکمل طور پر بند ہو جانے اور براہ راست رابطے نہ ہونے کی وجہ سے صورت حال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے۔
عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان جاری جارحانہ پالیسی کے باعث بھارت اور پاکستان میں دائیں بازو کی انتہا پسند قوتوں کو مزید تقویت حاصل ہوئی ہے۔
یونائیٹڈ انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے معروف تجزیہ کار معید یوسف نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں کہا ہے کہ پاکستان میں عمران خان کی حکومت کے فوج کے قریب ہونے کے باعث مغربی ملکوں میں یہ ابہام تحلیل ہوتا دکھائی دیتا ہے کہ مختلف معاملات کے بارے میں سول حکومت کے ساتھ بات چیت کی جائے یا پھر فوج سے۔ یوں، اب جنوبی ایشیا میں موجود صورت حال کے حوالے سے پاکستانی حکومت کے بیانیے کو مغربی دنیا میں پہلے کی نسبت بہتر انداز میں سمجھا جا رہا ہے۔
معید یوسف کہتے ہیں کہ بھارتی حکومت نے حالیہ برسوں میں کشمیر کے بارے میں جو پالیسی اپنائی ہے، اس سے کشمیر میں استحکام پیدا ہونے کے بجائے صورت حال زیادہ پیچیدگی اختیار کر گئی ہے اور اس سے پاکستانی حکومت کو سپیس مل گئی ہے کہ وہ کشمیر کے معاملے کو بین الاقوامی سطح پر اور شدت سے پیش کرے۔
بھارت اور پاکستان کے پاس جوہری اور بیلسٹک میزائلوں کی صلاحیت ہونے کے باعث عام تاثر یہی رہا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے باعث روایتی ہتھیاروں کی جنگ کا امکان قریب قریب ختم ہو گیا ہے۔ تاہم، بھارتی بحریہ کے سابق سربراہ، ایڈمرل (ریٹائرڈ) ارون پرکاش کا کہنا ہے کہ پلوامہ حملے کے بعد دونوں ملکوں کی طرف سے کی گئی فضائی کارروائیوں سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ کسی ممکنہ ایٹمی جنگ میں روایتی ہتھیاروں سے محدود جنگی کارروائیاں اب بھی ممکن ہیں۔ بھارت کے معروف اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کیلئے لکھے گئے ایک مضمون میں ارون پرکاش کہتے ہیں کہ اس کے باوجود بھارت کو کسی بھی آئندہ جنگی اقدام کے بارے میں انتہائی محتاط رہنا ہوگا، کیونکہ پلوامہ کے بعد کے اقدامات سے ظاہر ہو گیا ہے کہ بھارت کے ہر اقدام کا پاکستان کی طرف سے بھی بھرپور جواب آ سکتا ہے۔
عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ پلوامہ کا واقعہ کارگل جیسا واقعہ نہیں تھا۔ کارگل میں پاکستان نے عارضی طور پر بھارت کے خلاف کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ تاہم، پاکستان کے اقدامات کی امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں سخت مذمت کی گئی تھی اور چین کی طرف سے بھی پاکستان کو کوئی حمایت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ لیکن، پلوامہ حملے کے بعد بالاکوٹ میں بھارتی فضائی حملے کی تصاویر اور پاکستان کے ایک ایف۔16 طیارے کو مار گرانے کے بھارتی دعوے کو دنیا نے تسلیم نہیں کیا، جبکہ اس کے جواب میں پاکستانی فضائیہ نے بھارت کا ایک مگ۔21 طیارہ مار گرایا اور اُس کے پائلٹ کو گرفتار کر لیا۔
عائشہ صدیقہ کے مطابق، اس واقعے سے پاکستانی عوام میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ پلوامہ کے بعد کی صورت حال بھارت کے بجائے پاکستان کے حق میں رہی۔ تاہم، اُنہوں نے پلوامہ کے واقعے کا موازنہ رن آف کچھ یا 1965 کی جنگ سے کرتے ہوئے کہا کہ درحقیقت پلوامہ کے بعد دونوں ملکوں میں سے کسی کو بھی برتری حاصل نہیں ہوئی۔
ڈاکٹر عادل نجم کہتے ہیں کہ پلوامہ کے بعد موجود سکوت میں کسی معمولی سی بات پر بھی چنگاری بھڑک اُٹھنے کا حقیقی خطرہ موجود ہے جس کے نتیجے میں صورت حال اس انداز میں بے قابو ہو سکتی ہے کہ امریکہ، چین یا کوئی بھی عالمی طاقت حالات کو معمول پر لانے میں کامیاب نہیں ہو پائے گی۔