کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 249 کے ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار قادر خان مندوخیل نے کامیابی حاصل کرلی ہے جب کہ مسلم لیگ (ن) نے دھاندلی کے الزامات عائد کیے ہیں۔ تجزیہ کار حلقے میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کی کامیابی کو غیر متوقع قرار دے رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے غیر حتمی نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کے امیدوار قادر خان مندوخیل نے 16 ہزار 156 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔
غیر حتمی نتائج کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مفتاح اسماعیل 15 ہزار 473 ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہے جب کہ حال ہی میں کالعدم قرار دی گئی جماعت تحریک لبیک کے امیداوار نذیر احمد کمالوی کو 11 ہزار 126 ووٹ ملے اور وہ تیسرے نمبر پر رہے۔
اس حلقے میں الیکشن تحریک انصاف کے فیصل واوڈا کی جانب سے سینیٹر بن جانے کے بعد نشست سے استعفے کے بعد کرائے گئے۔ تاہم اس بار حلقے سے تحریک انصاف کے امیدوار امجد آفریدی کو محض آٹھ ہزار 922 ووٹ ملے ہیں۔
حلقے میں ووٹ ڈالنے کی شرح کم یعنی 64۔21 فی صد ریکارڈ کی گئی جب کہ 731 ووٹس مسترد بھی ہوئے۔
کئی حلقوں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے الیکشن نتائج میں غیر معمولی تاخیر پر سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جیت نے ثابت کیا کہ شفاف انتخابات ہونے پر کراچی سے پاکستان پیپلز پارٹی کو کثیر ووٹ ملتا ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے غیر حتمی نتائج کے اعلان کے بعد میڈیا سے گفتگو میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور صوبائی وزیر سعید غنی کا کہنا تھا کہ بقول ان کے جب جب کراچی کے شہریوں نے مرضی سے ووٹ ڈالے پیپلز پارٹی کو شہر سے بھاری کامیابی ملی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پیپلز پارٹی 2023 کے عام انتخابات اور بلدیاتی انتخابات میں بھی کراچی سے بھرپور کامیابی حاصل کرے گی۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کہتی ہیں کہ ان کی جماعت کے الیکشن میں کامیابی کو چوری کر لیا گیا ہے۔
انہوں نے ایک ٹوئٹ میں مطالبہ کیا کہ الیکشن کمیشن کو متنازع انتخاب کے نتائج کو روک لینا چاہیے۔ اگر یہ نتیجہ نہ روکا گیا تو یہ کامیابی عارضی ہو گی اور حلقے میں مسلم لیگ (ن) انشااللہ جلد واپس آئے گی۔
سابق وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی ضمنی انتخابات کی شفافیت پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ حلقے میں کم ٹرن آؤٹ کے باوجود انتخابی نتیجہ تاخیر سے آنے اور کئی نتائج پر پولنگ ایجنٹس کے دستخط موجود نہ ہونے سے ابہام پیدا ہوگیا ہے۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے ان الزامات کو رد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ حلقے میں انتخابات مکمل طور پر شفاف اور غیر جانبدار ہوئے ہیں جس میں صوبائی حکومت کی کوئی بھی مداخلت نہیں تھی۔
وزیرِ بلدیات سندھ ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) جس پولنگ اسٹیشن سے ہار رہے ہوں وہاں ان کا پولنگ ایجنٹ بغیر نتیجہ لیے غائب ہو جائے اور پھر سارا الزام الیکشن کمیشن پر ڈال دیا جائے۔ شاید یہ بھول گئے کہ اس بار ان کا مقابلہ حقیقی جمہوری جماعت سے تھا۔