دائیں بازو کی ہندو قوم پرست تنظیم 'ویشیو ہندو پریشد (وی ایچ پی)' کے انتہا پسند لیڈر، پراوین توگڑیا نے گزشتہ دِنوں نریندر مودی حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ وہ شورش زدہ کشمیر پر ''کارپٹ بمباری''، یعنی بِلاامتیاز شدید بمباری کرے۔
اُن کا یہ بیان نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے سرحدی ضلع کپوارہ میں ایک فوجی ٹھکانے پر مشتبہہ عسکریت پسندوں کے ایک حملے کے فورا" بعد آیا ہے۔ اس حملے میں ایک اہل کار سمیت تین بھارتی فوجی ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے تھے۔
توگڑیا کے بقول، "ہماری حکومت کو اس طرح کے حملوں پر روک لگانے کے لئے وادئ کشمیر پر کارپٹ بمباری کرنی چاہیئے"۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھارتی حفاظتی دستوں پر ''ہونے والی سنگباری کو جنگ تصور کیا جائے'' اور اس کا توڑ کرنے کے لئے بھی علاقے پر کارپٹ بمباری کی جائے۔
توگڑیا کے بیان پر کشمیر میں شدید ردِ عمل ہوا ہے۔ استصوابِ رائے کا مُطالبہ کرنے والی جماعتوں کے ساتھ ساتھ حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والی بعض بھارت نواز سیاسی جماعتوں نے کہا ہے کہ 'وی ایچ پی' کے لیڈر کی تجویز، ان کے بقول، ''فرقہ پرستی اور بیمار ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے'' اور اس سے ھندوتو طاقتوں کے" بُرے اور شیطانی عزائم" کی نشاندہی ہوتی ہے۔
'وی ایچ پی' ہندوتو نظریئے کی حامی جماعت ہے۔ اس نظرئیے کو بھارت کی موجودہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی نے 1989 میں اپنایا تھا اور راشٹریہ سویئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور اس سے جڑی جماعتیں بھارت میں ھندوتو کو مقبولِ عام بنانے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اسے نافذ کرانے میں ہر اول دستے کے طور پر کام کررہی ہیں۔
کشمیری جماعتوں نے کہا ہے کہ ''توگڑیہ کا بیان بھارتی افواج کو معصوم کشمیریوں کے قتلِ عام پر اُکسا سکتا ہے''۔
اِدھر، حزبِ اختلاف کی بھارت نواز جماعت نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبد اللہ نے، جو نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے تین بار وزیرِ اعلیٰ رہ چکے ہیں، مودی حکومت پر ''بُری نیت سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے'' کا الزام عائد کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کپوارہ میں پیش آنے والے اس واقعے کو ''بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے'' اور جہاں ایک طرف بھارتی ریاست چھتیس گڑھ کے سُکما علاقے میں نکسلیوں کے حالیہ حملے میں 26 پولیس والوں کے مارے جانے پر بھارتی حکومت اور ذرائع ابلاغ نے مبینہ طور پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے، وہیں کشمیر میں تین فوجیوں کی ہلاکت کے معاملے پر ''کشمیری مسلمانوں کے تاثر کو مسخ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں''۔
بھارتی وزیرِ اعظم کے دفتر میں وزیرِ مملکت جتیندر سنگھ نے فاروق عبداللہ پر جوابی وار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کے اس بیان سے ''کشمیر میں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں سے بر سرِ پیکار حفاظتی دستوں کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے''۔ نئی دہلی میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے، انہوں نے کہا " جموں کشمیر میں ایسی قبیل کےلوگ موجود ہیں جو پُرتشدد واقعات کی پسند کی بنیادوں پر مذمت کرتے ہیں"۔