افریقی ملک کینیا میں کرونا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے لگائے گئے کرفیو کے باعث حاملہ خواتین کی زندگی کو خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔
کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں شام سے صبح سویرے تک لگائے گئے کرفیو کے باعث ذرائع آمدورفت بھی معطل ہیں۔ ایسے میں حاملہ خواتین کو اسپتال تک پہنچنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اسپتالوں تک رسائی نہ ہونے کے باعث بہت سی خواتین دائی کے ذریعے بچوں کو جنم دے رہی ہیں جس سے دورانِ زچگی اموات کی شرح میں اضافے کے علاوہ صحت کے دیگر مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔
ویرونیکا نامی خاتون نے خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ' پریس کو اپنی آب بیتی سناتے ہوئے بتایا کہ جب اُنہیں درد محسوس ہوا تو اسپتال جانے کے ذرائع نہ ہونے کے باعث اُنہوں نے مقامی دائی کے ذریعے بچے کو جنم دیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ وہ اس عمل کے دوران شدید تکلیف سے گزریں اور ساتھ ہی اُنہیں بچے کی صحت سے متعلق بھی خدشات کا سامنا کرنا پڑا۔
کینیا کا شمار بھی دنیا کے اُن ملکوں میں ہوتا ہے جہاں صحتِ عامہ کی ناکافی سہولیات کے باعث دورانِ زچگی اموات معمول ہیں۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ مارچ کے بعد سے لے کر اب تک دورانِ زچگی اموات کی شرح میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
نیروبی کے ایک سرکاری اسپتال کی ڈاکٹر جمیما کاریوکی نے بتایا کہ جب مارچ میں کرفیو کا آغاز ہوا تو اسپتال خالی ہو گئے۔ اُن کے بقول ہمیں اطلاعات ملتی رہیں کہ بہت سی خواتین روایتی طریقوں سے بچوں کو جنم دے رہی ہیں۔
اُن کے بقول کرفیو ختم ہونے پر اسپتال آںے والی ایسی کئی خواتین کو اُنہوں نے دیکھا جن کے بچے انتقال کر چکے تھے یا اُنہیں زچگی کی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
جمیما نے بتایا کہ صورتِ حال کی سنگینی کے پیشِ نظر اُنہوں نے ٹوئٹر پر اپنا نمبر دیا تاکہ ایسی خواتین اُن سے رابطہ کر سکیں۔ اُن کے بقول اُنہیں ہر روز 30 سے 40 کالز موصول ہوتی رہیں، جن میں خواتین زچگی سے متعلق معلومات حاصل کرتی رہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے گھروں سے ایسی خواتین کو اسپتال لانے کے لیے گاڑیوں کا بندوبست بھی کیا، لیکن کرفیو کی سختی اور پولیس کے ناروا رویے کے باعث بہت کم ہی سڑکوں پر آ سکیں۔
کینیا میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں نے دعویٰ کیا تھا کہ کرفیو کی مبینہ خلاف ورزی پر پولیس نے 23 افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
ڈاکٹر جمیما نے بتایا کہ بعدازاں اُنہوں نے ایسی خواتین کی مدد کے لیے مختلف کمپنیوں اور سرکاری تنظیموں سے بات کی جن کے تعاون سے خواتین کے لیے 'ویلز فار لائف' کی بنیاد ڈالی گئی۔
جمیما نے بتایا کہ وزارتِ صحت، نیروبی یونیورسٹی اور ٹیکسی سروس بولٹ کے تعاون سے ان خواتین کو مفت سہولیات فراہم کی گئیں۔
اُنہوں نے بتایا کہ حاملہ خواتین کو مشورے کے لیے ٹال فری نمبر جاری کیا گیا جب کہ طبی امداد کی صورت میں ٹیکسی کے ذریعے اُنہیں اسپتال لانے کی سہولت بھی دی گئی۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کینیا میں اب بھی 32 فی صد خواتین اپنے طور روایتی طریقے سے گھروں میں بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ لہذٰا حالیہ برسوں میں زچگی کے دوران اموات کی شرح میں کمی کے باوجود کینیا ایسے 21 بڑے ملکوں کی فہرست میں شامل ہے۔