"یہ میری دیورانی آٹھ ماہ کی حاملہ ہے, ہمیں فکر ہے کہ سیلاب میں پورا شہر ڈوبا ہوا ہے۔ اسپتال ہیں تو وہ بھی ڈ وب چکے ہیں، اسے ضرورت کے وقت کہاں لے کر جائیں گے؟ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہیں۔ گھر سے نکل کر اس اسکول میں آ بیٹھے ہیں۔ ایسی حالت میں اس کا یہاں کس طرح گزارہ ہو رہا ہے یہ ہم عورتیں ہی سمجھ سکتی ہیں؟"
یہ کہنا تھا زلیخا کا، جو سندھ کےضلع نوشہرو فیروز کے علاقے پڈعیدن کے اسکول میں قائم سیلاب زدگان کے امدادی کیمپ میں گزشتہ ایک ہفتے سے قیام پذیر ہیں۔ ان کے ہمرا ان کی دیورانی، جیٹھانی اور بچّے بھی موجود تھے۔
میر پور خاص کے گوٹھ میرواہ کی بسمہ اللہ خاتون نے رات میں سیلاب آنے کے دوران اپنی تینوں بہوؤں کو لیا اور محفوظ مقام پر آ گئیں۔
ان کی ایک بہو حاملہ ہے۔ ان کے خاندان کے17 افراد اس وقت دو چارپائیوں پر بیٹھے ہیں، جس میں ایک چارپائی پر ترپال ہے، جس کے نیچے ان کی بہوئیں بیٹھی ہیں۔
ان کی حاملہ بہو کو اس وقت کوئی ایسی جگہ بھی میسر نہیں جہاں وہ آرام سے لیٹ سکے۔
جھڈو کی 19 سالہ مینا نے سیلاب میں اپنا گھر رات کے وقت چھوڑا اور تین دن بعد پہلی بیٹی کو جنم دیا۔
زچگی کے وقت سرکاری اسپتال بند تھا۔ ان کے شوہر اشوک نے چھ ہزار روپے خرچ کر کے ایک دائی سے زچگی کرائی۔
مینا اپنی نومولود بیٹی کو رلی میں لپیٹ کر ڈوبے ہوئے گاؤں کے کنارے بیٹھی ہیں اور پاس ایک تھیلی میں درد کم کرنے کی دوا اور بچی کے لیے ایک سیرپ رکھا ہوا ہے۔
سیلاب زدہ علاقوں میں ساڑھے چھ لاکھ حاملہ خواتین موجود
اقوامِ متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اس وقت ساڑھے چھ لاکھ حاملہ خواتین موجود ہیں، جن میں سے 73 ہزار خواتین کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ آئندہ ماہ زچگی کے مرحلے میں ہوں گی۔
اس دوران انہیں تربیت یافتہ ہیلتھ ورکرز، طبی امداد، نومولود کی بہتر نگہداشت کے وسائل درکار ہوں گے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 10 لاکھ مکانات منہدم ہونے کے سبب خواتین اور لڑکیوں کو صنفی امتیاز اور گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
خواتین کو درپیش مسائل اور اس مشکل وقت میں بنیادی صحت او رزچگی سے متعلق سہولیات کے فقدان پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ جب بھی ملک میں کوئی ایسی قدرتی آفت آتی ہے، تو خواتین کی ضروریات کو لازمی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی کا خواتین ونگ اس بات سے آگاہ ہے کہ سیلاب سے متاثرہ خواتین کو اس وقت کن کن اشیا کی فوری ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت جو سامان وہاں بھیجا جا رہا ہے، اس میں خواتین کی ضروریات کی چیزوں کو شامل رکھا گیا ہے۔
حافظ نعیم الرحمٰن کے مطابق اس وقت جو حاملہ خواتین ہے ان کے لیےپاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) سے جڑے ڈاکٹر ،جس میں مرد اور خواتین ڈاکٹر شامل ہیں، وہ اس مسئلے کو دیکھ رہے ہیں البتہ اس کے باوجود یہ محدود پیمانے پر کرسکتے ہیں ابھی بدین کے ایک اسپتال میں کچھ خواتین کے کے ہاں بچوں کی ولادت ہوئی ہے، جہاں پیما کی میڈیکل ٹیم ان کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔
حافظ نعیم کا کہنا تھا کہ ریاست کے پاس وسائل زیادہ ہوتے ہیں، جن کے پاس صحت کے شعبے کے لیے مخصوص بجٹ اور وومن امپاورمنٹ کا علیحدہ سے بجٹ ہے، اسے اب استعمال کرنا چاہیے۔
سیلاب زدگان کے لیے امدادی سامان اکٹھا کرنے والوں میں جعفریہ ڈزاسٹر سیل (جے ڈی سی) بھی اس وقت پیش پیش ہے۔
جے ڈی سی کے سربراہ ظفر عباس کا کہنا ہے کہ متاثرین کے لیے اس وقت امداد کرنے والوں کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اشیا خور و نوش، خیمے اور پانی کی فوری ضرورت ہے البتہ خواتین کو اس وقت ماہواری کے مسائل سے نمٹنے کے لیے سینٹری نیپکنز کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے امداد کرنے والوں سے اپیل کی جب وہ امداد دیں تو اس بات کو بھی مدنظر رکھیں کہ خوراک کے ساتھ خواتین کی بنیادی صحت اور صفائی کے لیے جو بھی ضرورت کی اشیا ہیں انہیں ہر گز نظر انداز نہ کریں۔
خواتین کو درپیش ماہواری کے مسائل
سیلابی علاقوں کی کوریج کے دوران کچھ خواتین جو سامنے آکر بات نہیں کرنا چاہتی تھیں ان میں سے ایک نے مجھےبتایا کہ ان کو خوراک کی کمی کا تو سامنا ہے، لیکن ان کے ہمراہ دو بیٹیاں بھی ہیں، جن میں سے ایک بچی کے پیریڈز شروع ہو گئے ہیں، وہ ساتھ جو کپڑے لائے تھے، وہ میں پھاڑ پھاڑ کر اسے استعمال کے لیے دے رہے ہیں۔
’’میری ہنسنے بولنے والی بچّی اب ایک دم خاموش ہوکر سمٹی بیٹھی ہے۔ ہم ضرورت کی یہ چیز مانگ بھی نہیں سکتے۔‘‘
گھروں سے باہر کھلے آسمان تلے بیٹھی خواتین کے لیے اس وقت ٹوائلٹ کا نہ ہونا ایک مصیبت بن چکا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سیلاب سے متاثرہ خواتین کا کہنا تھا کہ ان کی پرائیویسی اس وقت ختم ہوچکی ہے۔ وہ پانی بھی اس لیے کم پی رہی ہیں کہ انہیں ٹوائلٹ کی سہولت میسر نہیں۔ ہر جگہ سیلاب کا پانی کھڑا ہے، سڑک کنارے لگے عارضی کیمپ اور مردوں کی موجودگی میں وہ رفع حاجت کے لیے کہاں جائیں۔ ان کے پاس پہننے کے لیے صاف کپڑے بھی نہیں ہیں۔
اٹک سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ بشریٰ ماہ نور پنجاب یونیورسٹی کی طالبہ ہیں، جنھوں نے اپنی دوست انعم خالد کے ساتھ مل کر ’ماہواری جسٹس‘ نامی ایک مہم کا آغاز سوشل میڈیا سے کیا، جس کے ذریعے سیلاب سے متاثرین خواتین کو سینیٹری نیپکنز اور مینسٹرول ہائی جین کٹس مہیا کی جارہی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بشریٰ ماہ نور نے بتایا کہ 2010 میں جب سیلاب آیا تو اس وقت ان کی عمر نو یا10 برس ہوگی۔ وہ اپنے والدین کے ہمراہ ایک ریلیف کیمپ گئی تھیں۔
’’وہاں میں نے ایک بچی کو دیکھا، جو اس کیمپ میں موجود تھی اور اس کے کپڑوں پر خون کے دھبے نمایاں تھے۔ میری والدہ نے جب یہ دیکھا تو وہ اس کے پاس گئیں اور اس کو ایک چادر اور صاف کپڑے فراہم کیے۔ اس بچی نے میری امی کو بتایا کہ وہ جب اس ریلیف کیمپ میں پہنچی تو اسے پیریڈز شروع ہوگئے۔ اس کے پاس کچھ نہیں تھا، پھر اس نے اپنا دوپٹہ پھاڑ کر اسے استعمال کرنا شروع کیا جو کتنا کام آسکتا تھا۔‘‘
بشریٰ ماہ نور کے مطابق جب یہ سیلاب آیا تو ان ذہن میں وہ چھوٹی بچی آئی کہ اب پھر سے کئی خواتین اور لڑکیوں کی اس کی ضرورت ہو گی جس کو ریاست اور فلاحی تنظیمیں غیر ضروری سمجھتے ہوئے نظر انداز کردیں گی۔ تو یوں انہوں نے اپنی دوست کے ہمراہ اس پر کام شروع کیا۔ ان کی دوست انعم کا بلوچستان کے علاقے قلعہ سیف اللہ میں کچھ لوگوں سے رابطہ تھا اور مسائل سے ہم آگاہ تھے۔
خواتین کی مدد کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال
’’ہم نے باقاعدہ سوشل میڈیا پر اس کے لیے آواز اٹھائی۔ شروع میں، ہم نے کافی ایسی تنظیموں سے رابطہ کیا، جو مینسٹرول ہائی جین پر کام کرتی ہیں۔ کئی ای میلز کے بعد جواب آیا کہ ہم تو آگاہی دینے پر کام کرتے ہیں۔ یہ جواب ہمیں خاصا مایوس کن لگا، پھر ہم نے خود ہی اس کام کو کرنے کا بیڑا اٹھایا۔‘‘
وہ کہتی ہیں کہ ’’میں لاہور کی ہول سیل مارکیٹ گئی، جہاں سے میں نے کم قیمت پر انڈر ویئرز اور پیڈز خریدے۔ ایک انڈر ویئر کی ہول سیل میں قیمت 40 روپے اور پیڈ کی قیمت 80 روپے پڑتی ہے، یوں ہم 120 روپے میں ایک کٹ بناتے ہیں۔ اس کٹ کے اندر ایک پرچہ ڈالا جاتا ہے جس میں اسے استعمال کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے تاکہ کسی ایسی عورت کو جو پہلی بار سینیٹری پیڈ کا استعمال کرنے جا رہی ہو، اسے دشواری پیش نہ آئے۔‘‘
بشریٰ ماہ نو اور انعم اس مہم کے ذریعے اب تک 12 ہزار خواتین کو یہ سامان پہنچا چکی ہیں، جن میں جنوبی پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ کے سیلاب سے متاثرہ علاقے شامل ہیں۔
اس سامان کی ترسیل کا طریقہ ایسی این جی اوز ہیں، جو خواتین کے لیے امداد کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر کوئی میڈیکل کیمپ لگایا جا رہا ہے، تو انہیں بھی یہ کٹس دے دی جاتی ہیں۔
ان پیڈز کے علاوہ کپڑے کے پیڈز، کاٹن پیڈز (تولیہ کے ٹکڑے، جنہیں کلورین سے دھونے کے بعد انڈر ویئر کے ساتھ بھیجا جاتا ہے، جس میں ایک صابن بھی موجود ہوتا ہے) وہ بھی بھیجے جارہے ہیں۔
’’اس کام کے دوران بہت سی ایسی کہانیاں بھی سننے کو ملیں، جس نے ہمیں یہ مہم مزید تیز کرنے کا حوصلہ دیا۔‘‘
’خواتین ماہواری کے دوران پتوں، مٹی تک کا استعمال کر رہی ہیں‘
بشری کے مطابق انہیں بتایا گیا کہ خواتین ماہواری کے دوران پتوں اور مٹی تک کا استعمال کر رہی ہیں۔ انہیں کچھ خواتین نے بتایا کہ میلے کپڑے تک وہ استعمال میں لارہی ہیں، وہ اپنے دوپٹے اس لیے استعمال نہیں کر سکتیں کہ اگر ایسا کیا تو وہ پردہ کیسے کریں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کے علاقے راجن پور میں ایک عورت کو جب میڈیکل کیمپ سے یہ کٹ ملی، تو اس نے روتے ہوئے خاتون ڈاکٹر کا ہاتھ چوم لیا اور کہا کہ آپ نے ہماری اتنی مشکل میں اس بات کا احساس کیا اور ہمیں یہ کٹ دی۔ ہم تو اپنی مشکل مرد رضاکاروں اور ڈاکٹروں سے بھی نہیں کہہ سکتے۔
عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سیلاب کے دوران 116 اضلاع میں 888 میں سے 180بنیادی صحت کی سہولیات مہیا کرنے والے مراکز مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں جب کہ باقی ماندہ بھی جزوی تباہ حالی کا شکار ہیں۔
پاکستان میں سیلاب سے اب تک ایک ہزار سے زائد افراد کی اموات ہو چکی ہیں جب کہ 15 ہزار افراد زخمی ہوئے ہیں۔
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں موجود حاملہ اور ماہواری سے گزرتی خواتین اس وقت فوری طور پر بہتر طبی سہولیات کی منتظر ہیں۔ مینا جس نے سیلابی ریلے سے گزر کر دو کلو میٹر دور رات کے اندھیرے میں کھلے آسمان تلے رات گزاری اور پھر تین روز بعد بیٹی کو جنم دیا، وہ اب اس بات سے پریشان ہے کہ اگر آنے والے دنو ں میں صاف پانی اور خوراک کی قلت کا یونہی سامنا رہا اور اس کی نومولود بیٹی کا بخار نہ اتر سکا تو کیا ہوگا؟
مینا کے مطابق اسے اپنے گھر کو کھودینے کے بعداب اپنی بیٹی کو کھونے کی ہمت نہیں ہے۔ اس لیے اس کا شوہر اب کسی ایسی جگہ کی تلاش میں ہے جہاں اس کی بچی کو ڈاکٹر مل جائے اور اس کی بیوی کو سر چھپانے کے لیے چھت بھی میسر ہو۔