پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اردو بازار سے'علم و ادب پبلشرز 'کے مینیجر اورعلمی شخصیت فہیم بلوچ کی مبینہ گمشدگی کے ایک ہفتے بعد بھی ان کے بارے میں ان کے اتے پتے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے۔پولیس نےواقعے کی ایف آئی آر درج کرکے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
ا اب تک اس بارے میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہناہے کہ فہیم بلوچ کو جبری طور پر گمشدہ کیا گیا ہے اور اس کی ذمہ دار صوبائی اور وفاقی حکومت ہے۔
اس مبینہ گمشدگی سے متعلق فہیم بلوچ کی کزن امِ حبیبہ ایڈووکیٹ نے بتایا کہ فہیم بلوچ کو ان کے دفتر سے 26 اگست کو رات ساڑھے آٹھ بجے کے قریب پولیس وردی میں ملبوس تین اہلکار اور تین سادہ لباس افراد اپنے ساتھ لے گئے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فہیم بلوچ کے وہاں موجود دوستوں کے مطابق واقعے سے 15 منٹ قبل کچھ لوگ دفتر آئے اور فہیم بلوچ کے بارے میں پوچھا، جس کے بعد دیگر لوگ بھی وہاں آ ئے اور فہیم بلوچ سے چند سوالات کرنے کے بعد ان سے کہا کہ ان کے صاحب نیچے گاڑی میں موجود ہیں، جو ان سے بھیجی گئی کتابوں کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں۔
جس کے بعد وہ ان کے ساتھ چلے گئے ، پھر انہیں پولیس موبائل میں بٹھایا گیا اور اب تک ان کی کوئی خبر نہیں مل سکی ہے۔
امِ حبیبہ نے بتایا کہ فہیم کا تمام کام مکمل طور پر علمی نوعیت کا تھا اور ان کے ادارے سے 90 فی صد اردو اور 10 فی صد بلوچی زبان میں کتابیں شائع ہوتی تھیں، جو مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ انہیں کبھی کسی قسم کی کوئی دھمکی نہیں ملی جب کہ وہ خود بھی قانون پسند شہری ہیں اور کبھی قانون ہاتھ میں نہیں لیا۔
فہیم بلوچ کے اس مبینہ اغوا کے واقعے کی ایف آئی آر کراچی کے پریڈی تھانے میں ان کی کزن امِ حبیبہ ایڈووکیٹ کی مدعیت میں درج کی گئی ہے۔
واقعے کی سامنے آنے والی سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ مسلح اہلکار اور سادہ کپڑوں میں افراد علم و ادب کے دفتر کی جانب جا رہے ہیں اور واپسی میں ان کے ساتھ فہیم بلوچ بھی ہیں۔
دوسری جانب فہیم بلوچ کی گمشدگی سے متعلق سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جاچکی ہے، جس پر ہائی کورٹ نے محکمۂ داخلہ سندھ، آئی جی سندھ، ڈی جی رینجرز اور دیگر کو 12 ستمبر کے لیے نوٹس جاری کردیے ہیں۔
فہیم بلوچ کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ عدالت سے انہیں انصاف ملے گا۔
پچیس سالہ فہیم بلوچ کے والدین کا انتقال ہوچکا ہے جب کہ ان کے بھائی بیرون ملک مقیم ہیں۔ ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ذیابیطس کے مریض بھی ہیں۔
واضح رہے کہ علم و ادب پبلشر زملکی سطح پر ایک معروف پبلشنگ ہاؤس ہے، جہاں بلوچی اور اردو ادب، زبان پر تحقیقی کتابیں شائع کی جاتی ہیں۔
فہیم بلوچ جو لالہ فہیم بلوچ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں ، کا تعلق بلوچستان کے ضلع پنجگور کے علاقے وشبود سے بتایا جاتا ہے۔
وہ 2016 سے اس پبلشنگ ہاؤس کے مینیجر ہونے کے ساتھ ’صدائے بلوچستان ڈاٹ کام‘ اور سہ ماہی’ گدان پنجگور‘ کے ایڈیٹر بھی ہیں۔
'فہیم بلوچ کے اغوا کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے'
انسانی حقوق کے سرگرم کارکن کرامت علی نے کہا ہےکہ سندھ میں پیپلز پارٹی جمہوریت کا دعویٰ کرتی ہے لیکن صوبے میں کتاب دوستوں، پبلشرز اور صحافیوں کو بھی اغوا کیا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سندھ اور وفاقی حکومتیں کٹھ پتلی ہیں۔ ان حکومتوں کو پس پردہ نظر نہ آنے والی قوتیں چلارہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ''قانون نافذ کرنےوالے اداروں کی طرف سے غیر قانونی، غیر آئینی طور پر شہریوں کو اغوا کرنا معمول بن چکا ہے۔ اب دن دھاڑے لالا فہیم جیسے ادبی شخص کا اغوا ظالمانہ عمل ہے۔''
انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ فہیم بلوچ کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور ان کے باضابطہ قانونی کارروائی کے حق کا تحفظ کیا جائے۔
کمیشن کا مزید کہنا تھا کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ سینیٹ میں فوجداری قانون ترمیمی بل 2022 پر غور و فکر کے دوران سول سوسائٹی کے تمام متعلقہ حلقوں سے مشاورت کی جائے۔ ایسے تمام ابہام دور کیے جائیں جو متاثرین کے خاندانوں کو جبری گمشدگی کے واقعات رپورٹ کرنے سے خوفزدہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسی ریاستی ایجنسیوں کی سویلین نگرانی کا مستحکم بندوبست متعارف کیا جائے جو جبری گمشدگی کے معاملات میں باقاعدگی سے ملوث ہیں۔
ایچ آر سی پی کی چیئرپرسن حنا جیلانی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ جون 2022 میں پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ ٹھوس شواہد سے نظر آرہا ہو کہ جبری گمشدکی کا واقعہ پیش آیا ہے تو ریاست لاپتاافراد کا سراغ لگانے کی پابند ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ لاپتا افراد کی حفاظت اور ان کا سراغ لگانے کے ذمہ دار ریاستی عہدیدار اگر اس فرض کی ادائیگی میں ناکام ہوں تو ان کا محاسبہ ہونا چاہیے۔
حنا جیلانی کامزید کہنا تھا کہ ملک میں جبری گمشدگی کی صورتِ حال انتہائی سنگین ہے اور پاکستان نے ایک ایسے مسئلے کے حل کے لیے سست پیش رفت کا مظاہرہ کیا ہے جسے بین الاقوامی سطح پر انسانیت کے خلاف جرم سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا پاکستان کو جبری گمشدگیوں سے تمام افراد کے تحفظ کے کنوینشن کی توثیق کرتے ہوئے یہ ثابت کرنا چاہیے کہ وہ جبری گمشدگیوں کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔
’تحقیقات جاری ہیں‘
دوسری جانب صوبائی حکومت کے ترجمان سے اس معاملے پر مؤقف لینے کی کوشش کی گئی لیکن ان کا جواب موصول نہیں ہوا۔ علاوہ ازیں سندھ حکومت اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے بھی فہیم بلوچ سے متعلق کوئی معلومات نہیں دی گئی ہیں۔
البتہ پولیس حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اغوا کے واقعے کی تفتیش کی جا رہی ہے۔ا س بارے میں بعض گواہوں کے بیانات بھی ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ تاہم انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اب تک کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
واضح رہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں یہ الزام عائد کرتی آئی ہیں کہ جبری گمشدگیوں میں پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار بھی ملوث ہوتے ہیں۔ تاہم وفاقی و صوبائی حکومتی اور فوجی حکام جبری گمشدگیوں کے عمل سے مکمل انکار کر تے آئےہیں۔