قومی اسمبلی کے حلقے این اے - 122 میں اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخاب کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کامیاب ہوگئے ہیں۔
سرکاری ٹی وی 'پی ٹی وی' کے مطابق اتوار کی نصف شب تک حلقے کے تمام پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹوں کی گنتی مکمل ہوگئی تھی۔
حلقے سے موصول ہونے والے غیر سرکاری، غیر حتمی نتائج کے مطابق سردار ایاز صادق کو اپنے حریف علیم خان پر تین ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری حاصل ہے۔
نجی ٹی وی 'جیو نیوز' نے دعویٰ کیا ہے کہ سردار ایاز صادق نے 75 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے ہیں جب کہ ان کے حریف اور پاکستان تحریکِ انصاف کے امیدوار علیم خان کو 72 ہزار سے زائد ووٹ ملے ہیں۔
مذکورہ نشست دھاندلی کے الزامات پر سردار ایاز صادق کے خلاف الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کے نتیجے میں خالی ہوئی تھی جو 2013ء کے الیکشن میں اس نشست سے تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کو شکست دے کر قومی اسمبلی میں پہنچے تھے۔
تاہم قومی اسمبلی کی اس نشست کے ساتھ خالی ہونے والی پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی نشست غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق تحریکِ انصاف لے اڑی ہے۔
اطلاعات ہیں کہ پی پی 147 (لاہور 11) سے تحریکِ انصاف کے امیدوار محمد شعیب صدیقی نے 30 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے ہیں جب کہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار محسن لطیف 28 ہزار سے زائد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔
اتوار کو این اے 122 سمیت قومی اسمبلی کی دو اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر ضمنی انتخاب ہوا تھا۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق قومی اسمبلی کے حلقے این اے 144 اوکاڑہ کے تمام پولنگ اسٹیشنوں سے موصول ہونے والے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق آزاد امیدوار چودھری ریاض الحق 80 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے ہیں۔
ان کے مخالف حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار چودھری علی عارف 40 ہزار سے زائد ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چودھری ریاض الحق کا تعلق بھی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) سے ہے لیکن انہوں نے پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حیثیت میں انتخاب لڑا تھا۔
اتوار کو تینوں نشستوں پر ضمنی انتخابات کے موقع پر کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لئے پولنگ اسٹیشنوں پر پولیس اور رینجرز کے علاوہ فوج بھی تعینات کی گئی تھی۔
مجموعی طور پر ضمنی انتخابات پر امن رہے البتہ کچھ مقامات پر مخالف جماعتوں کے کارکنوں کے بیچ کشیدگی اور ہاتھا پائی کے واقعات پیش آئے۔ پولنگ صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہی۔