پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے افغانستان میں جاری مفاہمتی عمل کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ہمارے بیانیے کی کامیابی ہے کہ اب دنیا اعتراف کر رہی ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔
وہ جمعرات کو پاکستان کے پارلیمان میں مشترکہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ صدر عارف علوی نے کہا کہ پاکستان بھی چاہتا ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو، سیاسی مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کیا جائے۔
افغان جنگ میں پاکستان کے کردار سے متعلق بیان دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دوسروں کی جنگ میں شریک ہونا غلط فیصلہ تھا جس کا ذکر وزیرِ اعظم عمران خان بھی کر چکے ہیں۔
خیال رہے کہ عمران خان نے بھی روسی ٹی وی 'آر ٹی' کو حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ ہم نے 70 ہزار جانیں گنوائیں اور 100 ارب ڈالر کا نقصان بھی برداشت کیا۔ پاکستان کو امریکہ کی اس جنگ میں غیر جانب دار رہنا چاہیے تھا۔
صدر عارف علوی نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ہر فیصلہ کرتے ہوئے ہمیں ملکی مفاد مقدم رکھنا ہوگا جب تک یہ باتیں قوم سنے گی نہیں، ان کو دہراتے رہنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن کے قیام سے تجارت کے لیے نئی راہداری کھلے گی۔
خیال رہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کا پارلیمانی سال اگست کے تیسرے ہفتے میں مکمل ہوگیا تھا۔ پاکستان کی پارلیمانی روایات کے مطابق نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر صدر ایوان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہیں۔
پاکستان کی پارلیمنٹ ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی اور ایوان بالا یعنی سینیٹ پر مشتمل ہے۔ قومی اسمبلی میں 342 جبکہ سینیٹ میں 104 ارکان ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ برس انتخابات ہوئے تھے جس کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت برسر اقتدار آئی تھی اور ڈاکٹر عارف علوی صدر مملکت منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے 17 ستمبر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے پہلی بار خطاب کرکے پارلیمانی سال کا آغاز کیا تھا۔
ایوان کے اجلاس میں امریکہ سے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ دونوں ممالک میں تعلقات اہمیت کے حامل ہیں۔ کچھ وقت کے لیے تعلقات سرد مہری کا شکار ہوئے تھے تاہم عمران خان کے دورۂ امریکہ سے سرد مہری میں کمی آئی ہے۔
اپنے خطاب میں انہوں نے پاک چین دوستی کا بھی ذکر کیا۔ صدر عارف علوی نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری خطّے کے لیے اہم ہے۔ اس سے ملک میں پائیدار معاشی ترقی ہو گی۔ منصوبے کو توانائی اور انفراسٹرکچر کے ساتھ دیگر ترقیاتی امور کی جانب مرکوز کر دیا گیا ہے۔
صدر نے اپنے خطاب میں روس، ترکی، سعودی عرب اور ایران سے پاکستان کے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان کے دوروں اور تعلقات میں بہتری کا بھی ذکر کیا۔
کشمیر سے متعلق بیان دیتے ہوئے صدر کا کہنا تھا کہ کشمیر کا معاملہ 50 سال بعد سلامتی کونسل میں زیر بحث آنا پاکستان کی کامیابی ہے۔ سلامتی کونسل کو اس مسئلے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
صدر عارف علوی نے قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ وزیر اعظم کے کامیاب دورے میں صدر ٹرمپ کی توجّہ کشمیر کی جانب مبذول کرانا اہم ہے۔
اقوام متحدہ سے مبصرین بھیجنے کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت کشمیریوں کی آواز سلب نہیں کرسکتا۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں صدر عارف علوی نے مزید کہا کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ملک کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے۔
انہوں نے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے اضلاع کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے جمہوریت مضبوط ہو گی۔
عارف علوی نے کہا کہ پاکستان مشکل معاشی حالات سے گزر رہا ہے۔ ملک کی محصولات کا بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی میں گزر جاتا ہے۔ تاہم درآمدات میں کمی اور برآمدات میں خسارہ کم ہو رہا ہے۔
انہوں نے وزیرِ اعظم عمران خان کی زیرِ صدارت کابینہ کے 50 اجلاس، سیٹیزن پورٹل کے اجرا اور حکومت کی کفایت شعاری کا بھی ذکر کیا۔
صدر کے خطاب کے دوران اپوزیشن کی جانب سے مسلسل احتجاج کیا جاتا رہا۔ حزبِ اختلاف کے بعض ارکان نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اڑا دیں۔ جب کہ کئی ارکان وزیرِ اعظم کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔
حزبِ اختلاف کے مسلسل نعرے لگانے پر صدر عارف علوی نے خطاب کے دوران کہا کہ آپ شور مچاتے جائیں مگر بات بھی سن لیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ہنگامے تو جاری رہیں گے لیکن مثبت کام کریں۔
حزبِ اختلاف کے ارکان نے احتجاج کے دوران اراکینِ اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہونے پر نعرے بازی کی۔
اپوزیشن اراکین نے خطاب کے دوران اسپیکر کی ڈیسک کے سامنے سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ اور سابق صدر آصف علی زرداری کی تصاویر اٹھائی ہوئی تھیں۔ یہ تمام افراد قومی اسمبلی کے ارکان اور حزبِ اختلاف کا حصہ ہیں۔
نجی ٹی وی چینل ’جیو‘ کے مطابق احتجاج کے دوران حکومت اور حزبِ اختلاف کے ارکان دست و گریباں بھی ہونے لگے تھے لیکن سارجنٹ ایٹ آرمز نے بیچ بچاؤ کرا دیا۔ دوسری جانب وزیرِ اعظم عمران خان نے خطاب سننے کے لیے ہیڈ فون لگائے ہوئے تھے۔
صدر مملکت نے خطاب میں عدلیہ کی کارکردگی کو بھی سراہا جب کہ ماڈل کورٹس کے قیام کو اہم قدم قرار دیا۔
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ جلد اور آسان انصاف کے لیے اہم قانونی اقدامات کیے گئے ہیں۔ جن قوانین کا مسوّدہ بنایا گیا ہے اس کو پارلیمان سے جلد منظور کیا جائے۔
خواتین سے متعلق حکومت کے اقدامات پر انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم کے ویژن کے مطابق خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے احساس پروگرام میں ان کو بھر پور حصہ دیا جا رہا ہے۔ ہمیں خواتین کو معاشرے میں باوقار بنانا ہوگا تاکہ وہ معاشرے کی تعمیر میں کردار ادا کر سکیں۔
انہوں نے وراثت میں خواتین کا حق دینے کو ممکن بنانے پر زور دیا۔
حکومت کے صحت سے متعلق اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے صدر مملکت کا کہنا تھا کہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک وہ صحت مند نہ ہو۔ حکومت نے صحت انصاف کارڈ کا آغاز کیا اس سے ایک لاکھ سے زائد خاندان استفادہ کر سکیں گے۔
صدر عارف علوی نے غریب افراد کے لیے پناہ گاہیں بنانے کے حکومتی منصوبے کی بھی تعریف کی۔ انہوں نے کم لاگت گھروں کی فراہمی کے پروجیکٹ کو انقلابی منصوبہ قرار دیا۔
فوج کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ملک میں قیامِ امن کے لیے کردار کی تعریف کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ پاکستان کی بہادر افواج دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ کر دنیا پر اپنی دھاک بٹھا چکی ہیں۔
انہوں نے پاکستان کی فوج کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم ان کے پیچھے کھڑی ہے۔
میڈیا کی آزادی کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اظہارِ رائے کی آزادی ہے۔ موجودہ صدی ذرائع ابلاغ کی صدی ہے۔
ڈاکٹر عارف علوی نے مزید کہا کہ میڈیا کو بھی ذمّہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔
انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ سوشل میڈیا کے حوالے سے جامع منصوبہ بندی کی جائے تاکہ جھوٹی خبروں کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔