ذرائع ابلاغ کے حقوق کے حامی امریکہ میں قائم ایک ادارے نے کہا ہے کہ 2009 میں دنیا بھر میں اخبارات کی آزادی میں مسلسل آٹھویں سال کمی آئى ہے۔
فریڈم ہاؤس نے جمعرات کے روز جو رپورٹ جاری کی ہے، اُس میں کہا گیا ہے کہ پریس کی آزادی کو سب سے نمایاں نقصان مشرقِ وسطیٰ، برّاعظم افریقہ کے زیریں صحرا کے علاقے اور لاطینی امریکہ میں پہنچا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انٹر نیٹ اور ابلاغ کے دوسرے نئے ذرائع میں جو نسبتاً آزاد ماحول میّسر تھا ، اُس ختم کرنے کے لیے چین، روس اور وینی زیولا کی حکومتوں نے باقاعدگی کے ساتھ دراندازیاں کیں۔رپورٹ کے مطابق، سینسر کرنے، اطلاعات تک رسائى کو روکنے اور اپنے شہریوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے جدید اور پیچیدہ تیکنیکی طریقے استعمال کیے جارہے ہیں۔
واشنگٹن میں قائم ادارے نے کہا ہے کہ روس میں ذرائع ابلاغ کے ماحول میں بدستور زیاد گُھٹن ہے اور وہ سب سے خطرناک ماحول ہے۔ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران میں پچھلے سال متنازع صدارتی انتخاب کے بعدحکومت نے صحافیوں کو کچلنے کی جو کارروائیاں کیں، اُن کے نتیجے میں ایران 2009 میں پریس کی آزادی ختم کرنے کے معاملے میں دوسرے بہت سے ملکوں پر بازی لے گیا۔
رپورٹ میں پریس کی آزادی کے معاملے میں 10 بدترین ملکوں کی فہرست میں بیلا روس، برما، کیوبا، استوائى گنی، ایرِٹریا، ایران، لیبیا، شمالی کوریا، ترکمانستان اور ازبکستان شامل ہیں۔ادارے کا کہنا ہے کہ ان ملکوں میں غیر جانبدار اور آزاد ذرائع ابلاغ کا یا تو کوئى وجود ہی نہیں یا اگر ایسا کوئى ادارہ ہے تو وہ بمشکل ہی کام کرسکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ، دنیا بھر میں ایشیا بحر الکاہل کا خطہ وہ واحد خطّہ ہے ، جہاں پچھلے سال ذرائع ابلاغ کی آزادی میں اضافہ ہوا ہے ۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے خلاف اپنے تین ہفتوں تک حملوں کے دوران ذرائع ابلاغ پر جو پابندیاں عائد کی تھیں، وہ اُس نے ختم کرنا شروع کردی ہیں۔ وہ حملے پچھلے سال کے شروع میں بند ہوگئے تھے۔