رسائی کے لنکس

آزادی صحافت کے فروغ کی ضرورت پر زور


بحرین اور شام نے ’’ذرائع ابلاغ پر سخت کریک ڈاؤن‘‘ کے ذریعے حکومتی دباؤ برقرار رکھنے کے لیے کیا گیا

اقوام متحدہ اور صحافیوں کے حقوق کی علمبردار تنظیموں نے آزادی صحافت کے عالمی دن کے موقع پر کہا ہے کہ عرب دنیا میں جمہوری تحریکوں کے بعد رونما ہونے والی تبدیلیوں ’’عرب اسپرنگ‘‘ کے باعث کچھ حکومتوں کی گرفت صحافت پر ڈھیلی پڑی ہے لیکن اب بھی بہت سے ممالک میڈیا کو دبانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔

جمعرات کو ایک مشترکہ بیان میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اور یونیسکو کی سربراہ ارینا بوکووا نے کہا ہے کہ آزادی صحافت ان معاشروں میں شفافیت اور احتساب میں اضافے کے ذریعے تبدیلی کی ضمانت فراہم کرتی ہے ۔

فریڈم ہاؤس نامی تنظیم نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں گزشتہ سال آزادی صحافت کے ضمن میں ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ گروپ کے مطابق مصر، لیبیا اور تیونس میں عرب سپرنگ کے بعد قابل ذکر تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ تاہم بحرین اور شام نے ’’ذرائع ابلاغ پر سخت کریک ڈاؤن‘‘ کے ذریعے حکومتی دباؤ برقرار رکھنے کے لیے کیا گیا۔

گروپ کے مطابق چین، روس اور ایران نے حکومت کے ناقدین کو گرفتار کرنے سمیت دیگر طریقوں سے ذرائع ابلاغ پر اپنی گرفت مضبوط کیے رکھی۔

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے صحافیوں پر ہونے والے حملوں کی ایک بار پھر شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ رواں سال اب تک 21 صحافی مارے جا چکے ہیں۔

گروپ نے شام کے صدر بشار الاسد اور صومالیہ میں اسلامی ملیشیا کو آزادی صحافت کے سب سے بڑے مخالف قرار دیا ہے۔

آزادی صحافت کا عالمی دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد 1993ء سے ہرسال منایا جاتا ہے جس کا مقصد دنیا بھرمیں میڈیا کی آزادی کو جانچنا اور پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران ہلاک ہونے والے صحافیوں کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے۔

اُدھر اس موقع پر پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اطلاعات قمر زمان کائرہ نے کہا کہ 2011ء میں ہلاک ہونے والے پاکستانی صحافی سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا تاکہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے خلاف تشدد کے واقعات کی حوصلہ شکنی ہو۔

غیر ملکی تنظیموں نے ایک بار پھر الزم لگایا کہ پاکستان میں صرف شدت پسند گروہ ہی نہیں بلکہ سلامتی سے متعلق سرکاری اداروں کے اہلکار بھی صحافیوں کے خلاف پر تشدد کارروائی میں ملوث ہیں۔

لیکن کیا ان اداروں کو بھی حکومت جوابدہ بنانے کا ادارہ رکھتی ہے اس بارے میں وزیراطلاعات قمر زمان کائرہ نے بظاہر بے بسی کا اظہار کیا۔

وزیرِ اطلاعات قمر زمان کائرہ
وزیرِ اطلاعات قمر زمان کائرہ

’’پاکستان ایک ترقی پذیر ریاست ہے جہاں کئی فریقین ہیں، ریاستی و غیر ریاستی عناصر بھی ہیں ... ریاست کے اداروں میں نئی تشکیل ہو رہی ہے اور کھینچا تانی بھی ہے۔ میں یہ ضمانت نہیں دے سکتا، ہر ممکن کوشش کی یقین دہانی کرا سکتا ہوں کہ کسی اور صحافی کے ساتھ زیادتی نا ہو۔‘‘

2011ء میں پاکستان کم از کم 11 صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران ہلاک ہوئے اور آزادی صحافت کی عالمی تنظیموں کی جانب سے پاکستان کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے لیے مہلک ترین ملک قرار دیا گیا۔

رواں سال اب تک پاکستان میں صرف ایک صحافی اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران ہلاک ہوا ہے۔ یہ واقعہ جنوری میں شمالی مغربی خیبر پختون خواہ میں پیش آیا اور مسلح افراد کی فائرنگ سےجابحق ہونے والے صحافی مکرم خان عاطف وائس آف امریکہ کی پشتو سروس دیوہ سے منسلک تھے۔

قبائلی علاقے مہمند ایجنسی سے تعلق رکھنے والے مکرم خان عاطف طالبان کی طرف سے جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ پشاور سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر شبقدر کے علاقے میں رہائش پذیر تھے۔

ان کے قتل کی ذمہ داری طالبان شدت پسندوں نے قبول کی تھی اور صحافیوں کی عالمی و مقامی تنظیموں نے اس کی شدید مذمت کرتے ملک میں صحافیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG