دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں کامیابی کے لئے امریکی ماہرین اب بیرون ملک کے ساتھ امریکہ کے اندر شدت پسندی اور انتہا پسند نظریات کے پھیلاؤ کی وجوہات پر تحقیق کر رہے ہیں ۔ نومبر 2009ءمیں امریکی فوج کے میجر ندال حسن کی طرف سے ریاست ٹیکساس کے فوجی اڈے فورٹ ہڈ پر حملے اور مئی 2010ء میں نیو یارک کے ٹائمز اسکوائر میں ایک تعلیم یافتہ پاکستانی نژاد امریکی فیصل شہزاد کی طرف سے دہشت گردی کی ایک ناکام کوشش کے لیے القاعدہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔
امریکی ایف بی آئی نے گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کےلیےملک کی مسلمان کمیونٹی سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی ہے۔اور اندرونی دہشت گردی پر تحقیق کرنے والے امریکی مصنف جے ایم برگر کہتے ہیں کہ مسلمان کمیونٹی بھی دہشت گرد ی سے تنگ آ گئی ہے۔
جے ایم برگر کا کہناہے کہ ایف بی آئی روابط قائم کرنے کی مختلف کوششوں سے منسلک رہی ہے۔ میرے خیال میں یہ کوششیں بہت زیادہ کامیاب نہیں رہیں۔ گو ان پروگراموں کی کامیابی کی راہ میں کچھ رکاوٹیں حائل ہیں، پھر بھی ان سے کچھ بھلا ہو سکتا ہے۔
لیکن جے ایم برگر کے مطابق ایسے پروگراموں کو قانون نافذ کرنے کو بعض اوقات سیاسی رخ دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ واشنگٹن میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ہوم لینڈ سیکیورٹی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ فرینک سیلوفو کہتے ہیں کہ تفتیش کے نقطہ نظر سے کچھ پیش رفت دیکھی گئی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ 9/11 کے بعد اندرونی دہشت گردی کے 44 کیس سامنے آئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا کھوج 2009ءکے بعد لگایا گیا تھا۔ قانون کے نفاذ اور دہشت گردی کی روک تھام کے اقدامات کا کچھ فائدہ دیکھا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں یقینا کمیونٹی میں بھی ان کوششوں کو بڑھانا چاہیے۔ میرے نزڈیک یہ فیڈرل حکومت نہیں، بلکہ علاقائی سطح پر قانون لاگو کرنے والے اداروں کا کام ہے۔
اوباماانتظامیہ نے اس ہفتے کے دوران انسداد دہشت گردی کے لیے اپنی نئی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف امریکی فوج کی کوششوں کو سراہا ہے ۔
صدر نے اپنی ایک تقریر میں کہاہے کہ انہوں نے القاعدہ کو صلاحیتوں کو زبردست نقصان پہنچایا ہے ۔۔ القاعدہ کو مشکلات کا سامنا ہے اور ہم یہ دباؤ جاری رکھیں گے۔
صدر اوباما کا یہ خطاب افغانستان سے اس سال کے آخر تک دس ہزار امریکی فوجیوں کو بلانے کے اعلان کے ایک ہفتے کے بعد سامنے آیا ۔ جبکہ اس کے بعد انسداد دہشت گردی کے لیے صدر اوباما کے مشیر جان برنینن نے دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی نئی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے اسے اپنی پہلے سے موجود حکمت عملی کا تسلسل ہی قرار دیا ۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ پہلی حکمت عملی ہے جو امریکہ میں اندرونی دہشت گردی کے فروغ کی القاعدہ کی صلاحیت کے مقابلے کےلیے بنائی گئی ہے۔ بلکہ یہ پہلی ایسی حکمت عملی ہے جسے امریکی حدود کے اندر دہشت گردی کی روک تھام پر توجہ کے نکتہ نظر سے بنایا گیا ہے ۔
وہ امریکہ کی قومی سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنے کےلیے انتہائی درست طریقہ اختیار کرنے پر زور دیتے ہیں اور ایران کے جوہری پروگرام کو امریکہ کے لیے باعث تشویش قرار دیتے ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اس نئی حکمت عملی میں دنیا بھر میں موجود القاعدہ اور اس کے اتحادیوں کی مکمل تباہی پرتوجہ مرکوز ہوگی ۔
امریکی عہدے دراوں کے مطابق مئی میں اوسامہ بن لادن کی ہلاکت سے القاعدہ کی قیادت اور تنظیمی ڈھانچے کو بہت نقصان پہنچا ہے اور مشرق وسطی ملکوں سے اٹھنے والے جمہوریت کے مطالبے میں القاعدہ کا کوئی کردار نہیں ہے ۔