الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی اسمبلی (پارلیمان کے ایوان زیریں) کے ارکان کے اثاثہ جات کی تفصیلات جاری کردی ہیں اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سمیت تمام عوامی نمائندوں نے حلفیہ بیانات میں کہا ہے کہ اُنھوں نے اپنا کوئی بھی اثاثہ پوشیدہ نہیں رکھا ہے۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی طرف سے جمع کرائی گئی دستاویزات میں اُنھوں نے کہا ہے کہ ملتان میں 63 لاکھ مالیت کے ایک مکان کے علاوہ اُن کے پاس تقریباَ دوسو تولے سونا ہے جب کہ بینک اکاؤنٹس میں ان کی کل رقم ایک کروڑ تیس لاکھ ہے۔
لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ حلفیہ بیان کے ساتھ داخل کرائی گئی ان دستاویزات میں پاکستانی وزیراعظم نے کہا ہے کہ اُن کے پاس اپنی ذاتی گاڑی نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن میں داخل کرائی گئی تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور کشمیر کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن کے پاس بھی اپنی ذاتی گاڑی نہیں ہے اور بینک اکاؤنٹ میں ان کی کل رقم چار لاکھ تین ہزار روپے ہے۔ اس کے علاوہ ڈیراسماعیل خان میں آبائی مکان میں وہ پانچویں حصے اور شورکوٹ میں وہ پچیس لاکھ مالیت کی جائیداد کے مالک ہیں۔
ناقدین یوسف رضا گیلانی سمیت دیگر اراکین پارلیمان کی اس مبینہ غربت پر تعجب کا اظہار اور الیکشن کمیشن کو فراہم کی گئی تفصیلات کو مضحکہ خیز قرار دے رہے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کے لگ بھگ ایک سو قیمتی سُوٹوں ، جن کے ساتھ وہ میچنگ جوتے اور ٹائیاں پہنتے ہیں، کا چرچا اُس روز سے مقامی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں ہوتا آیا ہے جب وہ ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے اور ان اطلاعات کی کسی مرحلے پر اُنھوں نے تردید بھی نہیں کی۔
کئی برسوں سے عوامی جلسوں میں شرکت کے لیے لینڈکروز اور پجیرو جیپوں میں سفر کرنے والے مولانا فضل الرحمن کا بھی ”بے کار“ ہونا مبصرین کے لیے باعث حیرانگی ہے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے اپنے بیان حلفیہ میں بتایا کہ اُن کے پاس چھ پلاٹس کے علاوہ دوالگ الگ مقامات پر 430 اور 198 کنال زرعی اراضی اوراُن کے بینک اکاؤنٹس میں 54لاکھ روپے سے زائد رقم ہے۔ چوہدری نثار نے اپنے اثاثوں میں دو گاڑیاں بھی ظاہر کی ہیں۔
مظفرگڑھ سے پیپلز پارٹی کے جمشید دستی سب سے غریب رکن قومی اسمبلی ہیں۔ اُنھوں نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ اُن کے پاس نہ کوئی مکان ہے اور ناگاڑی ۔ بیان حلفی کے مطابق اُن کی آمدن کا واحد ذریعہ قومی اسمبلی سے ملنے والی تنخواہ ہے۔
جعلی ڈگری کی وجہ سے جمشید دستی کو رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے مستعفی ہونا پڑا لیکن حکمران جماعت نے اُنھیں دوبارہ اپنا اُمیدوار نامزد کیا تھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ شاید جمشید دستی کی اسی ناگفتہ بہ مالی حالت کے باعث پیپلزپارٹی نے اُنھیں عوامی نمائندہ منتخب کروانے کے لیے رکن قومی اسمبلی کے ٹکٹ سے نوازا تھا۔