سعودی عرب کے فرمانرواں شاہ عبداللہ کے سوتیلے بھائی اور شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز منگل کو سپرد خاک کردیئے گئے۔ ان کی نماز جنازہ ریاض کی جامع مسجد امام ترکی بن عبداللہ میں ادا کی گئی جبکہ ان کی تدفین ریاض کے ہی السعود قبرستان میں عمل میں آئی۔ وہ ولی عہد ہونے کے علاوہ نائب وزیراعظم، وزیر دفاع اور شہری ہوابازی کے وزیر بھی تھے۔ ان کی جگہ 77 سالہ شہزادہ نائف کوولی عہد مقرر کئے جانے کا امکان ہے تاہم ابھی اس کا سرکاری طور پر اعلان نہیں کیا گیا۔
سلطان بن عبدالعزیز کو بڑی آنت میں کینسر کی شکایت تھی جس کا کافی عرصے سے علاج چل رہا تھا ۔ برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق اسی مرض نے گزشتہ ہفتے ان کی جان لے لی۔ وہ نیویارک میں علاج کی غرض سے مقیم تھے ۔ یہیں ان کا انتقال ہوا جبکہ ان کی میت پیر کی رات نیویارک سے ریاض پہنچی تھی۔ اس وقت ریاض کا ائیرپورٹ لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ شاہ عبداللہ خود بھی وہیں موجود تھے۔ ان کا جسد خاکی ایک تابوت میں رکھا گیا تھا جسے طیارے سے اتارنے کے بعد ایک ایمبولیس میں رکھ کرمقام مقصود تک پہنچایا گیا۔
سعودی عرب تیل پیداکرنے والے ممالک میں سر فہرست ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں سے گہرے روحانی رشتے رکھتا ہے جس کی بنیادی وجہ مسلمانوں کی مقدس عبادت گاہیں مسجد الحرام اور مسجد نبوی ہیں۔
شاہ عبداللہ، مرحوم سلطان بن عبدالعزیز اور نائف 1995ء سے مختلف اوقات میں امور مملکت چلانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہ عبداللہ 80 کی دہائی کے آخری سالوں میں سعودی عرب کی شاہی حکومت میں شامل ہوئے۔ وہ کمر کی تکلیف میں مبتلا ہیں ۔ بیماری کے سبب انہیں تین ماہ سے زیادہ مدت تک ملک سے باہر رہنا پڑا تھا۔ چند ماہ پہلے ان کا امریکہ اور ریاض میں آپریشن ہوا جبکہ ان دنوں بھی وہ ریاض کے ایک اسپتال میں زیر علاج رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہی ان کی کمر کی سرجری ہوئی تھی۔
مبصرین کے مطابق اگرچہ مملکت سعودی عرب کے حکومتی امور کا سارا دارو مدار شاہ عبداللہ کے ذمے ہی رہے گا تاہم سلطان بن عبدالعزیز کی موت کے بعد یہ بار کافی حد تک شہزادہ نائف کے کاندھوں پر آجائے گا۔ ادھر ریاض کے گورنر شہزادہ سلمان جو سلطان بن عبدالعزیز اور نائف کے سگے بھائی اور شاہ عبداللہ کے سوتیلے بھائی ہیں ، ان کا کردار بھی اب امور مملکت میں بہت نمایاں ہوجائے گا۔ حکمراں خاندان میں شہزادہ سلمان کو اب انتہائی اہمیت حاصل ہوجائے گی۔
مبصرین کہتے ہیں کہ شہزادہ نائف اعتدال پسند شخصیت کے مالک ہیں تاہم وہ جمہوریت یا خواتین کے حقوق کے مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ ماضی میں جب وہ وزیر داخلہ تھے انہوں نے بغیر کسی شنوائی کے سیاسی مخالفین کو جیل میں ڈال دیا تھا۔
گیارہ ستمبر کے حملوں کے وقت نائف نے اس امر پر شک کا اظہار کیا تھا کہ حملہ آوروں کا تعلق سعودی عرب سے ہے حالانک حقیقت یہ تھی کہ 19 ہائی جیکرز میں سے 15 کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔
تاہم کچھ سابق سفیروں، مقامی صحافیوں اور شاہی خاندان سے مخلص لوگ شہزادہ نائف کی تصویر کو اچھا ثابت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شہزادہ نائف پچھلے تیس سالوں سے امور مملکت میں اہم فرائض انجام دے چکے ہیں۔ سعودی عرب کے ایک انگریزی اخبار، عرب نیوز، کے مدیر اعلیٰ خالد المینا بھی ان میں سے ایک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شہزادہ نائف کے بارے میں بہت کچھ کہا جاتا ہے مگر وہ ایک نرم دل شخصیت کے مالک ہیں ۔ انہیں مملکت کے امور سے مکمل آگاہی ہے۔
شاہ عبداللہ نے2006ء میں 35 شہزادوں پر مشتمل شوریٰ تشکیل دی تھی جس کو شاہ کے ساتھ مل کر ولی عہد کا انتخاب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی،تاہم شاہی حکم کے ذریعے یہ وضاحت کردی گئی تھی کہ شاہ کیلئے اس شوریٰ کے فیصلے کی پابندی لازمی نہیں اور وہ اپنی صوابدید کے مطابق ولی عہد کا انتخاب کرسکتا ہے۔ شاہ عبداللہ کے پاس سعودی عرب کے وزیراعظم کا منصب بھی ہے انہوں نے2009ء میں شہزادہ نائف کو دوئم نائب وزیراعظم نامزد کیا تھا جبکہ وزیردفاع اور نائب وزیراعظم کا منصب ولی عہد سلطان بن عبدالعزیز کے پاس تھا۔
شہزادہ سلطان سعودی عرب کے نظام میں ہراول دستے کا کردار ادا کر تے رہے۔ مرحوم 5 جنوری 1928ء کو ریاض میں پیدا ہوئے اور قرآن اور عربی زبان کی تعلیم ریاض میں ہی حاصل کی۔ وہ مختلف اوقات میں ریاض کے گورنر، وزیر زراعت، وزیراطلاعات بھی رہے۔ خادم الحرمین شریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے بادشاہ بننے کے بعد انہیں ولی عہد مقرر کیا تھا۔
مقبول ترین
1