شمالی یورپ کے ایک چھوٹے سے ملک لٹویا کے ایک ساحلی شہر لی پاجا کے ایک تاریخی ہوٹل میں جب آپ کمرہ لیتے ہیں توآپ کو چابی کے ساتھ ہتھکڑی بھی ملتی ہے۔ جی ہاں اصلی ہتھکڑی۔ ہوٹل کا ملازم آپ کو ہتھکڑی لگاتا ہے اور کمرے میں بند کرنے کے بعد چابی اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ یہ افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ اس ہوٹل کا نام ہے لی پاجا پرزن ہوٹل، یعنی لی پاجا کا جیل ہوٹل۔
جیل ہوٹل زارِ روس دور کی ایک قدیم اور پراسرار عمارت میں قائم ہے۔ یہ عمارت سن 1900 کے لگ بھگ روس کی بحری فوج نے ان فوجیوں کے لیے بنائی تھی جنہیں قواعد اور ضابطوں کی خلاف ورزیوں پر قید کی سزا دی جاتی تھی۔ اس زمانے میں یہ عمارت کوارٹرگارڈز کے نام سے موسوم تھی۔
زارِ روس کے زمانے میں یہ قصبہ روسی بحری فوج کے ایک بڑے مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ بعد ازاں عمارت کو غیر ملکی جاسوسوں اور خطرناک ملزموں سے پوچھ گچھ اور تفتیش کے لیے روس کو خفیہ ادارے کے جی پی کے کنٹرول میں دے دیا گیا۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد یہ عمارت دنیا بھر میں تشدد اور ایذا رسانی کے ایک بدنام مرکز کے طور پر پہچانی جانے لگی۔
لی پاچا جیل کی اونچی، بوسیدہ اور ہیبت ناک دیواروں کے اندر 1997 تک انسانی چیخوں کی آوازیں گونجتی اور پتھریلے فرش خون کے چھینٹوں سے رنگین ہوتے رہے۔
جب آپ لی پاجا جیل ہوٹل میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو عمارت کا وہی رنگ و روغن دکھائی دے گا جو جیل کے زمانے میں تھا۔ کئی جگہ سے پلستر اکھڑے ہوئے ملیں گے۔ لوہے کے دروازوں پر جگہ جگہ زنگ کے دھبے نظر آئیں گے، جن کی مرمت نہیں کی گئی بلکہ انہیں اپنی اصلی حالت میں محفوظ کر دیا گیا ہے۔
ہوٹل کا تمام فرنیچر جیل کے زمانے کا ہے۔ مہمانوں کو قیدیوں کی کال کوٹھڑیوں میں ٹہرایا جاتا ہے جہاں لوہے کے ٹوٹے ہوئے پلنگ پر بے آرام بستر ان کا استقبال کرتا ہے۔
ہوٹل کا عملہ جیل کے اہل کاروں کا یونیفارم پہنتا ہے۔ بیرے اور خدمت گار جیل گارڈ ز کی وردیوں میں چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہوٹل کا منیجر آپ کو جیلر کی یونیفارم میں کسی بوسیدہ رجسٹر پر جھکا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ آپ کو جیلر کے دفتر کی دیوار پر زارِ روس کی تصویر لٹکتی ہوئی دکھائی دے گی اور میز پر آپ کو وہی رجسٹر اور اسٹیشنری نظر آئے گی جسے عشروں پہلے جیل کے حکام استعمال کرتے تھے۔
لی پاجا جیل ہوٹل کے بروشر میں کہا گیا ہے کہ ہوٹل میں آپ کا سامنا ایک قدیم جیل کی نامانوس فضا اور ماحول سے ہو گا۔ آپ ہوٹل کے عملے سے خوش گفتاری کی توقع نہ رکھیں۔ عمومی طور پر ان کا رویہ غیر دوستانہ ہو گا۔ اگر آپ پسند کریں تو آپ کی تواضح تشدد سے بھی کی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے الگ سے فیس ادا کرنا ہوگی۔
تشدد اور اذیت کا سامنا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے گروپ میں دس افراد شامل ہوں ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہوٹل والوں کو اکیلی جان پر تشدد کرنے میں مزہ نہ آتا ہو۔
بروشر کے آخر میں لکھا ہے کہ اگر آپ کمزور دل کے ہیں تو براہ کرم ہمارے ہاں تشريف لانے کی زحمت نہ کریں، بلکہ اپنے لیے کوئی روایتی ہوٹل تلاش کریں۔
ہوٹل میں چیک ان ہوتے وقت آپ سے ایک فارم پر دستخط کروا ئے جاتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ آپ جیل مینول کے تمام قواعد اور ضابطوں کا احترام کریں گے، اکڑ دکھانے کی صورت میں ہوٹل کا عملہ بزور طاقت ان قواعد پر عمل کروا ئے گا۔
چیک ان ہونے کے بعد ایک بندوق بردار باوردی گارڈ آپ کو ایک قیدی کی حیثیت میں کوٹھڑی تک پہنچانے جائے گا۔ اگر آپ نے اضافی فیس دے کر خطرناک قیدیوں کا پیکیج لیا ہے تو گارڈ آپ کو بندوق کے بٹ سے دھکیلتا ہوا کوٹھری تک لے جائے گا اور پھر اندر دھکا دے کر اس زور سے دروازہ بند کرے گا کہ پوری راہداری گونج اٹھے گی۔
خطرناک قیدیوں کے پیکیج میں جسمانی اور نفسیاتی ایذارسانی اور تشدد بھی شامل ہوتا ہے۔ اگر آپ نے یہ مہنگا پیکیج لیا تو پھر ہوٹل میں آپ کی رات بستر پر نہیں بلکہ تفتیشی کمرے میں گذرے گی۔ رات گہری ہوتے ہی سیکیورٹی گارڈ ز آپ کے ہاتھ کمر پر باندھ کر دھکیلتے ہوئے ایک پراسرار اور ڈراؤنے کمرے میں لے جائیں گے، جہاں خفیہ ایجنسی کے اہل کار جسمانی اور نفسیاتی تشدد کے علامتی طریقوں کے ذریعے آپ سے ’’ راز‘‘اگلوانے کی کوشش کریں گے ۔ اس دوران آپ کو دوسرے تفتیشی کمروں سے چیخ و پکار اور سسکیوں کی آوازیں بھی سنائی دیں گی۔ لیکن ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ ٹیپ شدہ آوازیں ہوتی ہیں۔
لٹویا کا یہ تاریخی جیل ہوٹل بہت سستا ہے۔ آپ صرف سات یورو خرچ کر کے قیدیوں کی کوٹھڑی میں ایک رات بستر پر کروٹیں بدلتے ہوئے گذار سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بے آرام اور تکلیف دہ بستر پر نیند بھلا کہاں آئے گی۔ سات یورو میں رہائش کے ساتھ مفت کھانا بھی شامل ہے۔ لیکن خیال رہے کہ بروشر میں نمایاں طور پر لکھا ہے کہ آپ کو صرف قیدیوں کا کھانا مہیا کیا جائے گا۔
اگر آپ دس افراد کے گروپ میں جاتے ہیں تو کرائے میں خصوصي رعایت مل سکتی ہے اور کال کوٹھڑی میں رات گذارنے کے لیے صرف چار یورو فی کس ادا کرنے ہوں گے لیکن اس کے ساتھ تشدد کا خصوصي پیکیج بھی الگ سے خريدنا ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ آخر آپ جیل ہوٹل میں جائیں ہی کیوں۔ تو اس کا سیدھا سادا جواب ہے، ایڈونچر۔
ہوٹل انتظامیہ کا کہناہے کہ ان کے ہاں مہمانوں کا رش لگا رہتا ہے، خاص طورپر طالب علموں کے گروپوں کا ۔ جو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ماضی کے اس ظالمانہ دور میں خفیہ ایجنسیاں قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی تھیں۔
مگر دوسری جانب آج کے دور میں بھی، جب ہر کہیں بظاہر انسانی حقوق کے جھنڈے بلند کیے جا رہے ہیں، کئی ملکوں کی ایجنسیاں قیدیوں کے ساتھ زارِ روس کے دور سے بھی کہیں تکلیف دہ غیر انسانی برتاؤ کررہی ہیں۔