کیمیائی ہتھیاروں کی نگرانی کرنے والے بین الاقوامی ادارے نے تصدیق کی ہے کہ رواں سال چار اپریل کو شام کے علاقے خان شیخون میں کیے جانے والے مبینہ کیمیائی حملے میں اعصاب شکن سرین گیس استعمال کی گئی تھی۔
شام کے صوبہ ادلب کے قصبے خان شیخون میں کیے جانے والے اس حملے میں خواتین اور بچوں سمیت 90سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
حملے سے متاثرہ افراد اور تڑپ تڑپ کر مرنے والے بچوں کی ویڈیوز منظرِ عام پر آنے کے بعد بین الاقوامی برادری نے اس حملے کی سخت مذمت کی تھی اور شامی حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹہرایا تھا۔
جمعرات کی شب اپنے ایک بیان میں کیمیائی ہتھیاروں پر پابندی کے نگران بین الاقوامی ادارے کے سربراہ احمد ازمجو نے کہا ہے کہ ان کے ادارے کی تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ حملے میں ممنوعی سرین گیس استعمال کی گئی تھی۔
بیان میں ازمجو نے کہا کہ یہ حملہ کیمیائی ہتھیاروں پر پابندی سے متعلق بین الاقوامی سمجھوتے کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
تحقیقات میں حملے کے ذمہ داروں کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ اقوامِ متحدہ اور اسی ادارے کی ایک اور ٹیم اس رپورٹ کی روشنی میں حملے کے ذمہ داروں کے تعین کے لیے الگ سے تحقیقات کرے گی۔
امریکی محکمۂ خارجہ نے رپورٹ پر اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ تحقیقات سے سامنے آنے والے شواہد ظاہر کر رہے ہیں کہ اسد حکومت کس بے رحمی سے کیمیائی ہتھیار استعمال کرتی رہی ہے۔
خان شیخون پر حملے کے بعد صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حکم پر امریکی فوج نے شامی حکومت کے زیرِ استعمال ایک فوجی ہوائی اڈے پر کروز میزائل برسائے تھے جہاں سے امریکی حکام کے بقول کیمیائی حملہ کرنے والے شامی طیاروں نے پرواز بھری تھی۔
شام کے صدر بشار الاسد ملک میں چھ سال سے جاری خانہ جنگی کے دوران کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تردید کرتے رہے ہیں۔
صدر اسد کے قریبی اتحادی روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے رواں ماہ کہا تھا کہ ان کے خیال میں کیمیائی حملہ ایک اشتعال انگیز عمل تھا جو ان لوگوں نے کیا جو اس کا الزام بشار الاسد کے سر تھونپنا چاہتے تھے۔