امریکی وزیر دفاع جِم میٹس نے بدھ کے روز کہا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ شام نے کیمیائی ہتھیار استعمال نہ کرنے کے امریکی انتباہ پر عمل کیا ہے۔
میٹس نے کہا کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ اُنھوں نے اس انتباہ کو سنجیدگی سے لیا‘‘۔
اُن کا حوالہ شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کی جانب تھا، جس کے لیے اُنھوں نے کہا کہ اُس نے کوئی نیا کیمیائی حملہ نہیں کیا۔
پیر کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں وائٹ ہاؤس پریس سکریٹری، شان اسپائسر نے شامی صدر بشار الاسد کو متنبہ کیا تھا کہ اگر اُن کی افواج کوئی اور کیمیائی حملہ کرتی ہیں، ’’تو وہ اور اُن کی فوج کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی‘‘۔
اس بیان سے قبل خفیہ امریکی رپورٹ سامنے آئی تھی جس میں شام میں ایک اور ممکنہ کیمیائی حملے کی تیاری کی اطلاع ملی تھی، جس الزام کی حکومت شام نے تردید کی تھی۔
شام میں خان شیخون کے حزب مخالف کے زیر کنٹرول علاقے پر چار اپریل کو ہونے والے کیمیائی حملے کے نتیجے میں 80 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے، جس اقدام کی بیرون ملک وسیع پیمانے پر سخت تنقید کی گئی تھی، جس میں امریکہ بھی شامل تھا۔
جرمنی میں منعقدہ ایک تقریب میں، جو جنگ عظیم دوم کے دوران یورپ کی تعمیر نو کے لیے ’مارشل پلان‘ کی ستہترویں سالگرہ منانے کے سلسلے میں کی گئی، میٹس نے الزام لگایا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن بین الاوامی سطح پر ’’شرارت‘‘ کر رہے ہیں۔
میٹس نے کہا کہ روسی عوام کے ’’لیڈر روس کی سرحدوں سے دور شرارت سے باز نہیں آتے۔ وہ اُن کی قسمت نہیں بدلیں گے یا اُن کی امیدوں کو روشن نہیں کریں گے‘‘۔