پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کے رہنما عارف وزیر کی ہلاکت کے خلاف خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ مظاہرے کے دوران پولیس نے پی ٹی ایم کے ایک درجن سے زائد کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔
احتجاجی مظاہروں میں پی ٹی ایم کارکنوں کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، پیپلزپارٹی، قومی وطن پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے کارکنوں اور عہدے داروں نے بھی شرکت کی۔
مظاہروں کے دوران مردان، بنوں اور دیگر علاقوں سے پشتون تحفظ تحریک کے ایک درجن سے زائد اراکین کو ریاستی اداروں پر تنقید کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔
پشاور کے علاوہ جنوبی وزیرستان کے انتظامی مرکز وانا کے احتجاجی مظاہرے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
پشتون تحفظ تحریک کے عبداللہ ننگیال کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی مظاہرین سے خطاب کیا۔
مظاہرے میں شریک ہزاروں قبائلیوں نے حکومتی اداروں اور امن کمیٹیوں کے خلاف نعرے لگوائے۔
مقررین نے وانا میں امن کمیٹی کے فوری خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے دھمکی دی کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو تمام تر ذمہ داری حکومت پر ہی عائد ہو گی۔
احتجاجی مظاہرے میں سردار عارف وزیر کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی اور الزام لگایا گیا کہ ان کو ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ قتل کیا گیا۔
مظاہرے کے دوران ایک قرارداد کے ذریعے سردار عارف وزیر کے قتل کی غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
پشار کے حیات آباد میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے سے شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ممبر صوبائی اسمبلی میر کلام وزیر اور ڈاکٹر سید عالم محسود سمیت دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا۔
صوابی کے احتجاجی جلسے سے ڈاکٹر نور الامین محمد سلیم خان ایڈوکیٹ اور گوہر انقلابی نے خطاب کیا۔
مردان میں احتجاج کے دوران اداروں کے خلاف نعرہ بازی کرنے پر پولیس نے 10 افراد کو گرفتار کر کے مقامی تھانے منتقل کر دیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی۔
احتجاجی مظاہروں سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی ایم رہنماؤں نے عارف وزیر کے قتل کا ذمہ دار حکومت اور ریاستی اداروں کا ٹھیرایا۔
پشاور، وانا اور مردان کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان، باجوڑ، بنوں، صوابی اور دیگر شہروں اور قصبوں میں بھی پشتون تحفظ تحریک نے احتجاج کیا۔
سرکاری طور پر مردان، بنوں اور دیگر علاقوں سے پشتون تحفظ تحریک کے کارکنوں کے گرفتاری پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
لیکن ایک اعلٰی سرکاری عہدے دار نے بتایا کہ عارف وزیر کے قتل کا معاملہ وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا کی صدارت میں بدھ کو ہونے والے اجلاس میں زیرِ بحث آیا ہے۔
اجلاس میں پی ٹی ایم کے مختلف شہروں میں مظاہروں اور کارکنوں کی گرفتاری کے معاملے پر بات چیت کی گئی ہے۔ البتہ اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
بعض قبائلی رہنماؤں نے دعویٰ کیا ہے کہ عارف وزیر کے قتل کی مذمت کرنے پر اُن سے سرکاری سیکیورٹی واپس لی جا رہی ہے۔
ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنما ملک صلاح الدین نے اس ضمن میں گورنر، وزیر اعلٰی اور آئی جی کو خط بھی لکھا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اگر اُنہیں کوئی نقصان پہنچا تو اس کی ذمہ داری انتظامیہ پر ہو گی۔ خیال رہے کہ ملک صلاح الدین کے والد ملک گلی شاہ 2010 میں دہشت گردی کے ایک واقعے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
عارف وزیر پر جمعے کی شام افطار سے قبل تھانہ وانا کی حدود میں قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ اُنہیں تین گولیاں لگی تھیں۔
عارف وزیر کو ہفتے کو اسلام آباد کے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائسنز (پمز) میں داخل کرایا گیا، جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔
سردار عارف وزیر جنوبی وزیرستان سے ممبر قومی اسمبلی اور پشتون تحفظ تحریک کے بانی رہنما علی وزیر کے چچا زاد بھائی تھے۔