انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے زیر اہتمام پریس کلب کے سامنے دن کو بارہ بجے سے شام چار بجے تک لاپتہ افراد کی بازیابی اور شہدا کے ورثہ سے اظہار یکجتہی کے لئے دھرنا دیا گیا، اس موقع پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے نعر ے بھی لگائے گئے، دھرنے میں مختلف قوم پرست اور دیگر سیاسی جماعتوں و سول سوسائٹی کے رہنماﺅں نے شرکت کی اور لاپتہ افراد کے ورثا سے اظہار یکجہتی کیا۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے سربراہ نصراللہ بلوچ نے وائس آف امر یکہ سے گفتگو کر تے ہوئے کہا کہ دھرنے میں شر کت کے لئے صوبے کے مختلف علاقوں سے سو سے زائد خاندانوں کے افراد کوئٹہ آئے ہوئے ہیں. انہوں نے الزام لگایا کہ بلوچستان میں آئین اور قانون کے نام پر مبینہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ بیس سالوں میں بہت سے لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے بلوچوں کو بھی انسان سمجھا جائے اور لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ اگر کوئی مارا گیا ہے تو اس کے بارے میں لواحقین کو آگاہ کیا جائے۔
معمر بلوچ رہنما ماما قدیر بلوچ نے وی او اے کو بتایا کہ بلوچستان کی صورتحال اس وقت بہت سنگین اور خراب ہے۔ بقول اُن کے بلوچستان سے ہزاروں افراد اٹھائے گئے ہیں اور ہزاروں افراد کی لاشیں ملیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "چاروں صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ لوگ بلوچستان سے لاپتہ کئے گئے ہیں۔ ہم نے عالمی برادری کو بھی میں اس مسئلے سے آگاہ کیا ہے جبر ی طور پر لاپتہ کئے گئے لوگوں کی فہرست بھی اُن کو دی ہے۔ اگر اس مسئلے کا نوٹس نہیں لیا گیا تو ہم مزید سخت احتجاج کرنے پر مجبور ہوں گے۔"
کوئٹہ میں منسٹر ی آف ہیومن رائٹس کی صوبائی ڈائریکٹر جہاں آرا تبسم کا کہنا ہے کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماﺅں نے صوبے میں لاپتہ ہونے والے افراد کے بارے میں ان کے ادارے کو بھی آگاہ کیا اور ہمارے ادارے نے متعلقہ حکام سے اس بارے میں رابطے بھی کئے ہیں۔ "بلوچ مسنگ پرسنز والے اپنی بات میں حق بجانب ہیں ظاہر ہے کہ کسی گھر کا سر براہ غائب ہے کسی کا بچہ غائب ہے یہ بہت فکر کی بات ہے۔" جہاں آرا تبسم نے مزید کہا کہ ہمارے علاقائی دفتر کا کام یہ ہے کہ ہمارے پاس جو شکایات آتی ہیں وہ ہم متعلقہ شعبے کی طرف بھیج دیتے ہیں۔
بلوچستان میں لوگ لاپتہ افراد کے حوالے سے کافی حساس ہیں کیونکہ ماضی میں ایک ہزار سے زائد لاپتہ افراد کی لاشیں مختلف علاقوں سے برآمد ہوئی ہیں تاہم چند ماہ پہلے سے ہی یہ سلسلہ بند ہوا ہے۔ صوبے کی قوم پرست بلوچ جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ اب تک مختلف علاقوں سے ہزاروں افراد کو جبر ی طور پر لاپتہ کیاگیا ہے۔ تاہم وفاقی حکومت اور اس کے ادارے ان اعداد و شمار کو غلط قرار دیتی ہے۔