امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے سامنے امریکہ کی مختلف ریاستوں سے آئے پشتونوں نے ٕ مظاہرہ کیا ۔ یہ مظاہرہ پاکستان میں پشتونوں کے حقوق کے لیے سرگرم تحریک پشتون تحفظ موومنٹ کےساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کیا گیا تھا ۔
مظاہرے میں شریک لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ پشتون تحفظ موومنٹ کے مطالبات کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی کوششوں میں ان کے ساتھ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے احتجاج کا مقصد پشتونوں کے لئے بنیادی سماجی اور سیاسی حقوق کا حصول ہے۔
مظاہرے کے منتظم مجیب الرحمان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے مطالبات وہی ہیں جو پشتون تحفظ موومنٹ کے ہیں ۔’’لیکن آج یہاں وائٹ ہاؤس کے سامنے اکھٹے ہونے کا مقصد یہ ہے کہ امریکی حکومت پاکستانی حکومت پر سفارتی دباوؤ ڈالے کہ وہ پشتونوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافی بند کرے اور ان کے مطالبات پورے کئے جائیں ۔ کیونکہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا قریبی اتحادی ہے‘‘۔
ان کی تحریک کے پانچ مطالبات ہیں جن میں نقیب اللہ کے قتل میں ملوث ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو سزا دلانا، لاپتا افراد کی واپسی اور عدالتوں میں پیشی، مبینہ طور پر ماورائے عدالت قتل ہونے والے افراد کے کیسز کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کا قیام، قبائلی علاقوں سے بارودی سرنگوں کی صفائی اور فوجی چوکیوں پر پشتونوں کی مبینہ تذلیل روکنا شامل ہیں۔
گذشتہ دو دنوں میں جرمنی ، برطانیہ ، سویڈن، فن لینڈ اور آسٹریلیا میں پشتونوں نے مظاہرے کئے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکی ریاست کیلی فورنیا میں بھی پاکستانی قونصل خانے کے سامنے احتجاج کیا گیا ۔
منظور احمد پشتین سمیت پشتون تحفظ موومنٹ کے لیڈر وں نے بھی بذریعہ ٹیلی فون پاکستان سے مظاہرین سے خطاب کیا ۔
منتظمین کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ، یورپ اور متحدہ عرب امارات میں پشتون تنظیموں کے ساتھ رابطے میں ہیں ۔
’اگر ہمارے مطالبات منظور نہیں ہوتے تو ہمارے پاس آپشنز ہیں کہ ہم جمہوری اور قانونی راستہ اپنا کر اقوام متحدہ جائیں ، امریکی کانگرس میں جائیں اور انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل سے رابطہ کریں ‘۔
اس سال فروری کے مہینے میں سامنے آنے والی پشتون تحفظ موومنٹ نامی یہ تحریک اب تک پاکستان کے کئی شہروں میں دھرنے ، احتجاج اور لانگ مارچ کر چکی ہے ۔ یہ سلسلہ شروع ہوا کراچی کے ایک علاقے میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نقیب اللہ محسود کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت سے ۔جس کے بعد نہ صرف سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر اس کی مزمت کی گئی بلکہ ملک بھر کے مختلف شہروں اس کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے جس کے بعد پشتون تحفظ موومنٹ کی اس تحریک نے اسلام آباد میں کئی روز تک احتجاجی دھرنا دیا اور حکومت کے سامنے کچھ مطالبات رکھے جس کے بعد وزیر اعظم کی تحریری یقین دہانی کے بعد انہوں نے اپنا دھرنا ختم کر دیا ۔ اور انہیں ایک ماہ کی مہلت دی گئی کہ اس کے اندر اندر ان کے مسائل حل کئے جائیں۔ لیکن ان کے مطالبات ابھی بھی اپنی جگہ قائم ہیں ۔
حکومت کا موقف ہے کہ وہ پشتونوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں برت رہی۔ وہ قبائلی عوام کو ملک کے قومی دھارے میں شامل کرنے اور ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے کوشاں ہے ۔ ملکی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں اور سول سوسائٹی کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے مطالبات جائز ہیں اور ان کی بات سننی چاہئیے ۔