رسائی کے لنکس

بلاول بھٹو کے مودی مخالف بیان پر بھارت میں احتجاج


پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے خلاف دیے گئے مبینہ قابل اعتراض بیان پر بھارتی حکومت اور حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔

بھارتی وزارتِ خارجہ نے بلاول بھٹو کے بیان کو 'غیر مہذب' قرار دیا وہیں حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کے کارکنوں نے جمعے کو نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے باہر مظاہرہ کیا۔ پارٹی نے ہفتے کو ملک گیر احتجاج کا اعلان بھی کیا ہے۔

وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے ایک بیان میں بلاول کے بیان کو غیر مہذب اور اخلاق سے گرا ہوا قرار دیا او رکہا کہ وہ شاید 1971 کے آج کے دن کو بھول گئے ہیں جو کہ بقول ان کے پاکستانی حکمرانوں کی جانب سے بنگالیوں اور ہندوؤں کی 'نسل کشی' کا نتیجہ تھا۔

ان کے بقول افسوس کی بات یہ ہے کہ اقلیتوں کے تعلق سے پاکستان کا رویہ اب بھی نہیں بدلا ہے۔ اس کے کارنامے ایسے نہیں ہیں کہ وہ بھارت جیسے جمہوری ملک پر انگلی اُٹھائے۔

ہفتے کو پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بھارت کے احتجاج کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو کے بیان پر یہ ردِعمل بھارت کی 'بڑھتی ہوئی مایوسی' کا مظہر ہے۔

ترجمان پاکستانی دفترِ خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ بھارتی حکومت 2002 میں گجرات میں ہونے والے قتلِ عام سے متعلق حقائق سے پردہ پوشی کی کوشش کر رہی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ــ"گجرات میں 2002 میں جو کچھ ہوا وہ قتلِ عام، ہجوم کے ہاتھوں تشدد، ریپ اور لوٹ مار کی شرمناک داستان ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گجرات قتلِ عام کے ماسٹر مائنڈ انصاف کے کٹہرے میں آنے کے بجائے اعلٰی حکومتی عہدوں پر فائز ہیں۔"

بلاول بھٹو نے کہا کیا تھا؟

خیال رہے کہ بلاول بھٹو زرداری کا بھارتی وزیرِ اعظم سے متعلق بیان اُن کے ہم منصب جے شنکر کے سلامتی کونسل میں اس بیان کے بعد سامنے آیا تھا جس میں اُنہوں نے پاکستان پر اُسامہ بن لادن کو پناہ دینے اور دہشت گردی کرانے کا الزام عائد کیا تھا۔

جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے ایک نیوز بریفنگ میں کہا تھا کہ" میں جے شنکر کو یاد دلانا چاہوں گا کہ ’اسامہ بن لادن مر چکے ہیں لیکن گجرات کا قصائی زندہ ہے اور وہ بھارت کا وزیر اعظم ہے۔"

اُنہوں نے مزیدکہا کہ نریندر مودی کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد تھی۔ یہ آر ایس ایس کے وزیرِ اعظم اور وزیر ِخارجہ ہیں جو ہٹلر کے نظریات سے متاثر ہیں۔

ارندم باگچی نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستانی وزیرِ خارجہ کا بیان دہشت گردوں کو استعمال کر ے میں ناکامی کی وجہ سے ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس نے اسامہ بن لادن کو، 'شہید' قرار دے کر عزت افزائی کی۔ اس نے حافظ سعید، ذکی الرحمن لکھوی اور مولانا مسعود اظہر کو پناہ دی۔

یاد رہے کہ پاکستان دہشت گردی کی حمایت کے الزام کی سختی سے تردید کرتا ہے۔ پاکستان میں حافظ سعید اور ذکی الرحمن لکھوی وغیرہ کے خلاف عدالتی کارروائیاں کی گئیں اور اس وقت وہ جیل میں ہیں۔


بی جے پی کے کارکنوں نے بلاول کے بیان کے خلاف نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے باہر مظاہرہ کیا۔ انہوں نے ہائی کمیشن کی جانب بڑھنے کی کوشش کی جسے دہلی پولیس نے رکاوٹیں کھڑی کرکے ناکام بنا دیا۔ تاہم کچھ کارکن رکاوٹیں توڑ کر آگے بڑھ گئے۔

رپورٹس کے مطابق پولیس نے بعض بی جے پی کارکنوں کو حراست میں لے لیا۔ ان کو روکنے کے لیے پولیس کی جانب سے واٹر کینن بھی تعینات کی گئی تھیں۔

دریں اثنا بی جے پی نے بلاول بھٹو کے بیان کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ یہ احتجاج تمام ریاستوں میں کیا جائے گا اور بلاول کے پتلے نذرِ آتش کیے جائیں گے۔

بی جے پی نے اس کا اعلان کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ کا بیان دنیا کو گمراہ کرنے اور پاکستان کی گرتی معیشت، لاقانونیت، پاکستانی آرمی میں اختلافات اور بگڑتے عالمی رشتوں سے عالمی برادری کی توجہ دوسری جانب مبذول کرانے کے مقصد سے دیا گیا ہے۔ بی جے پی کے مطابق پاکستان دہشت گردوں کی پناہ گاہ بن گیا ہے۔

وزیرِ اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر نے بھی بلاول بھٹو کے بیان کی مذمت کی اور اسے شرمناک قرار دیا۔

گجرات میں کیا ہوا تھا؟

واضح رہے کہ 28 فروری 2002 کو گجرات کے گودھرا میں سابر متی ایکسپریس کے ایک ڈبے میں آتش زدگی ہوئی تھی جس میں ایودھیا سے لوٹ رہے 59 ہندو یاتری جل کر ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے بعد پورے گجرات میں فساد ات پھوٹ پڑےتھےجس میں بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے تھے جن میں بیشتر مسلمان تھے۔

فسادات سے متعلق مقدمات میں متعدد افراد کو سزائیں سنائی گئی تھیں۔ فسادات میں اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریند رمودی کے کردار کی جانچ کے لیے سپریم کورٹ کے حکم پر اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھی جس نے نریندر مودی کو کلین چٹ دے دی تھی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG