بھارت کی شمالی ریاست ہریانہ میں جاٹ برادری کی طرف سے اپنے مطالبات کے حق میں شروع ہونے والے مظاہرے پرتشدد صورت اختیار کر چکے ہیں جس کے بعد روہتک، بھیوانی اور جھاجر کے علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
اس برادری کے لوگ سرکاری ملازمتوں اور تعلیم کے مواقع میں اپنے لیے کوٹے کا مطالبات لے کر سڑکوں پر نکلے تھے لیکن جمعہ کو پولیس کے ساتھ جھڑپ میں ایک شخص کی ہلاکت کے بعد صورتحال کشیدہ ہو گئی اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات دیکھنے میں آئے۔
مشتعل افراد کی طرف سے ایک مقامی وزیر کے گھر کے علاوہ ریلوے اسٹیشن، سرکاری و نجی املاک کو نذر آتش کرنے کی کوشش بھی کی گئی جس کے بعد صورتحال پر قابو پانے کے لیے فوج اور نیم فوجی دستوں کو بھی یہاں تعینات کر دیا گیا ہے۔
ریاست کے وزیراعلیٰ نے مظاہرین کو پرامن رہنے کی درخواست کی ہے جب کہ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں ہریانہ کی صورتحال کو "بدقسمتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جمہوریت میں ہر مسئلے کا حل بات چیت اور مذاکرات میں ہوتا ہے۔"
ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ حکام نے بلوہ کرنے یا تشدد پر اکسانے والوں کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کا بھی حکم دیا ہے۔
مظاہرین نے ریاست کے مختلف علاقوں کو دارالحکومت دہلی سے ملانے والی شاہرہ پر بھی رکاوٹیں کھڑی کے ٹریفک کو کچھ دیر کے لیے معطل کر دیا۔
مختلف واقعات میں اب تک ستر سے زائد افراد کے زخمی ہونے کا بھی بتایا گیا۔