واشنگٹن —
امریکہ میں ایک سیاہ فام نوجوان کے قاتل کی عدالت سے بریت کے خلاف ملک کےکئی شہروں میں مظاہرے ہوئے ہیں جب کہ عدالتی فیصلے کے بعد ملک میں نسلی تعصب پر مباحثے میں شدت آگئی ہے۔
اتوار کی شب نیویارک، سان فرانسسکو، بوسٹن، ڈیٹرائٹ اور شکاگو سمیت کئی شہروں میں ہونے والے مظاہروں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور عدالتی فیصلے کو "نسلی تعصب پرمبنی" قرار دیا۔
امریکی شہر لاس اینجلس میں بھی مظاہرین نے عدالتی فیصلے کے خلاف پیر کی صبح 'سی این این' کے دفتر کے باہر مظاہرہ کیا۔ بعد ازاں پولیس نے کم از کم چھ مظاہرین کو "غیر قانونی اجتماع" کے الزام میں حراست میں لے لیا۔
عدالتی فیصلے کے بعد ہونے والے ابتدائی پرتشدد احتجاج کے بعد امریکہ کے صدر براک اوباما نے اتوار کو اپنے ردِ عمل میں قوم سے "پرسکون سوچ بچار" کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ "جیوری مقدمے کا فیصلہ سناچکی ہے اور امریکی قوم قانون کی پاسدار ہے "۔
خیال رہے کہ امریکی ریاست فلوریڈا میں گزشتہ سال پیش آنے والی قتل کی اس واردات نے امریکہ بھر کی توجہ حاصل کرلی تھی اور مقدمے کی عدالت میں سماعت کے دوران میں کئی مہینوں تک یہ کیس ٹی وی اور انٹرنیٹ پر مباحثوں کا موضوع بنا رہا تھا۔
انتیس سالہ ملزم جارج زمرمین پر الزام تھا کہ اس نے 26 فروری 2012ء کی شب فلوریڈا کے قصبے سین فورڈ میں 17 سالہ سیاہ فام نوجوان ٹریون مارٹن کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔
واقعے کی رات زمرمین اپنے رہائشی علاقے میں رضاکارانہ طور پر چوکیداری کر رہا تھا جب اس نے مارٹن کو مشکوک سمجھ کر پہلے پولیس کو اطلاع دی اور پھر اسے روکا۔ دونوں کے درمیان مبینہ طور پر ہونے والی ہاتھا پائی کے بعد زمرمین نے مارٹن کے دل میں گولی ماردی تھی جو جان لیوا ثابت ہوئی۔
ہسپانوی نژاد سفید فام زمرمین کا موقف تھا کہ وہ مارٹن کو اس کے مشکوک حلیے کے باعث چور اچکا سمجھا تھا اور اس نے ہاتھا پائی کے بعد اپنے دفاع میں نہتے مارٹن پر گولی چلائی تھی۔
بعد ازاں تحقیقات کے نتیجے میں پتا چلا تھا کہ مارٹن نزدیکی علاقے میں رہائش پذیر تھا اور وقوعہ کی رات ایک اسٹور سے کھانے پینے کا سامان لے کر گھر لوٹ رہا تھا۔
مذکورہ واقعے کی تفصیلات منظرِ عام پر آنے کے بعد کئی حلقوں نے اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ نوجوان مارٹن کو صرف اس لیے گولی ماری گئی کیوں کہ وہ سیاہ فام تھا۔
فلوریڈا کی ایک مقامی عدالت میں جاری اس مقدمے کی جیوری چھ خواتین پر مشتمل تھی جنہوں نے 16 گھنٹے کے طویل غور وخوض کے بعد ہفتے کی شام سنائے جانے والے فیصلے میں زمرمین کو تمام الزامات سے بری قرار دے دیا تھا۔
الزامات درست ثابت ہونے کی صورت میں زمرمین کو 30 سال سے عمر قید تک کی سزا ہوسکتی تھی۔
فیصلے پر امریکہ میں انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے لیے جدوجہد کرنے والے افراد اور مختلف حلقوں نے شدید ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے "بظاہر نسلی تعصب" پر مبنی قرار دیا ہے۔
عوامی احتجاج کے بعد امریکی محکمہ انصاف نے کہا ہے کہ وہ زمرمین کے خلاف شواہد کا جائزہ لے رہا ہے تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ آیا ملزم کے خلاف وفاقی عدالت میں چارہ جوئی کی جاسکتی ہے یا نہیں۔
ایسی صورت میں محکمہ انصاف کو عدالت کے روبرو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ زمرمین نےنسلی تعصب سے مغلوب ہو کر مارٹن پر گولی چلائی تھی۔
اتوار کی شب نیویارک، سان فرانسسکو، بوسٹن، ڈیٹرائٹ اور شکاگو سمیت کئی شہروں میں ہونے والے مظاہروں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور عدالتی فیصلے کو "نسلی تعصب پرمبنی" قرار دیا۔
امریکی شہر لاس اینجلس میں بھی مظاہرین نے عدالتی فیصلے کے خلاف پیر کی صبح 'سی این این' کے دفتر کے باہر مظاہرہ کیا۔ بعد ازاں پولیس نے کم از کم چھ مظاہرین کو "غیر قانونی اجتماع" کے الزام میں حراست میں لے لیا۔
عدالتی فیصلے کے بعد ہونے والے ابتدائی پرتشدد احتجاج کے بعد امریکہ کے صدر براک اوباما نے اتوار کو اپنے ردِ عمل میں قوم سے "پرسکون سوچ بچار" کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ "جیوری مقدمے کا فیصلہ سناچکی ہے اور امریکی قوم قانون کی پاسدار ہے "۔
خیال رہے کہ امریکی ریاست فلوریڈا میں گزشتہ سال پیش آنے والی قتل کی اس واردات نے امریکہ بھر کی توجہ حاصل کرلی تھی اور مقدمے کی عدالت میں سماعت کے دوران میں کئی مہینوں تک یہ کیس ٹی وی اور انٹرنیٹ پر مباحثوں کا موضوع بنا رہا تھا۔
انتیس سالہ ملزم جارج زمرمین پر الزام تھا کہ اس نے 26 فروری 2012ء کی شب فلوریڈا کے قصبے سین فورڈ میں 17 سالہ سیاہ فام نوجوان ٹریون مارٹن کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔
واقعے کی رات زمرمین اپنے رہائشی علاقے میں رضاکارانہ طور پر چوکیداری کر رہا تھا جب اس نے مارٹن کو مشکوک سمجھ کر پہلے پولیس کو اطلاع دی اور پھر اسے روکا۔ دونوں کے درمیان مبینہ طور پر ہونے والی ہاتھا پائی کے بعد زمرمین نے مارٹن کے دل میں گولی ماردی تھی جو جان لیوا ثابت ہوئی۔
ہسپانوی نژاد سفید فام زمرمین کا موقف تھا کہ وہ مارٹن کو اس کے مشکوک حلیے کے باعث چور اچکا سمجھا تھا اور اس نے ہاتھا پائی کے بعد اپنے دفاع میں نہتے مارٹن پر گولی چلائی تھی۔
بعد ازاں تحقیقات کے نتیجے میں پتا چلا تھا کہ مارٹن نزدیکی علاقے میں رہائش پذیر تھا اور وقوعہ کی رات ایک اسٹور سے کھانے پینے کا سامان لے کر گھر لوٹ رہا تھا۔
مذکورہ واقعے کی تفصیلات منظرِ عام پر آنے کے بعد کئی حلقوں نے اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ نوجوان مارٹن کو صرف اس لیے گولی ماری گئی کیوں کہ وہ سیاہ فام تھا۔
فلوریڈا کی ایک مقامی عدالت میں جاری اس مقدمے کی جیوری چھ خواتین پر مشتمل تھی جنہوں نے 16 گھنٹے کے طویل غور وخوض کے بعد ہفتے کی شام سنائے جانے والے فیصلے میں زمرمین کو تمام الزامات سے بری قرار دے دیا تھا۔
الزامات درست ثابت ہونے کی صورت میں زمرمین کو 30 سال سے عمر قید تک کی سزا ہوسکتی تھی۔
فیصلے پر امریکہ میں انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے لیے جدوجہد کرنے والے افراد اور مختلف حلقوں نے شدید ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے "بظاہر نسلی تعصب" پر مبنی قرار دیا ہے۔
عوامی احتجاج کے بعد امریکی محکمہ انصاف نے کہا ہے کہ وہ زمرمین کے خلاف شواہد کا جائزہ لے رہا ہے تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ آیا ملزم کے خلاف وفاقی عدالت میں چارہ جوئی کی جاسکتی ہے یا نہیں۔
ایسی صورت میں محکمہ انصاف کو عدالت کے روبرو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ زمرمین نےنسلی تعصب سے مغلوب ہو کر مارٹن پر گولی چلائی تھی۔