بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں مبینہ جھڑپ اور اس کے دوران نوجوان کی ہلاکت کے بعد مظاہروں اور اس کے والد کی جانب سے لاش طلب کرنے پر مقدمے کے اندراج پر شدید ردِعمل سامنے آیا ہے۔
سرینگر میں اس معاملے پر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا جب کہ سوشل میڈیا پر بھی صارفین اس پر اپنے تاثرات کا اظہار کر رہے ہیں۔
بھارتی کشمیر کی سابق وزیرِ اعلٰی محبوبہ مفتی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے 18 سالہ اطہر مشتاق کے والد اور اُن کے دو بھائیوں کے خلاف مقدمے کے اندراج کی مذمت کی ہے۔
اطہر مشتاق اور دو دوسرے نوجوانوں اعجاز مقبول گنائی اور زبیر احمد لون کو بھارتی فوج نے گزشتہ سال 30 دسمبر کو سری نگر کے مضافات میں واقع لاوے پورہ علاقے میں ایک مبینہ جھڑپ کے دوراں ہلاک کیا تھا۔
فوج نے کہا تھا کہ یہ تینوں دہشت گرد تھے جنہوں نے سری نگر۔بارہمولہ شاہراہ پر ایک بڑی کارروائی کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس اہم شاہراہ کو بھارتی فوج تنازع کشمیرکو تقسیم کرنے والی حد بندی لائن پر واقع اپنے ٹھکانوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پراستعمال کرتی ہے۔
فوج نے یہ بھی کہا تھا کہ اس نےایک نجی مکان میں محصور ان عسکریت پسندوں کو ہتھیار ڈال کر خود کو قانون کے حوالے کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا تھا جب کہ جائے وقوعہ سے اسلحہ برآمد کرنے کے بھی دعوے کیے گئے تھے۔
پولیس کے بقول اگرچہ ان تینوں نوجوانوں کا نام عسکریت پسندوں کی فہرست میں نہیں تھا۔ تاہم ان میں سے دو کے متعلق یہ اطلاعات تھیں کہ وہ عسکریت پسندوں کے سہولت کار ہیں۔
بعدازاں اعلٰی پولیس عہدے داروں نے فوج کے اس دعوے کی تائید کی تھی کہ ان تینوں نوجوانو ں کا تعلق ایک دہشت گر د تنظیم سے تھا۔
'ہمارے بچے بے گناہ تھے'
لیکن ان نوجوانوں کے لواحقین اب بھی مصر ہیں کہ یہ ایک فرضی جھڑپ تھی اور یہ کہ ان تینوں کو فوج نے بے دردی کے ساتھ قتل کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اعجاز مقبول اور اطہر مشتاق طلبہ تھے جب کہ 22 سالہ زبیر احمد پیشے کے لحاظ سے مستری تھا۔
پولیس نے تینوں کی لاشوں کو لواحقین کے سپرد کرنے کے بجائے سری نگر سے تقریباً 80 کلومیٹر شمال میں واقع سونہ مرگ کے کسی ویران مقام پر دفن کیا تھا۔
پولیس کا یہ مؤقف تھا کہ لاشوں کو لواحقین کے سپرد کرنے کی صورت میں ان کی تجہیز و تکفین میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی شرکت کا امکان موجود ہے جو کرونا وائرس کے پھیلاوٴ کو روکنے کے لیے کی جارہی کوششوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
پولیس نے مشتاق احمد اور دوسرے ملزموں پر غیرقانونی طور پر مظاہروں کے انعقاد، ملک دشمن عناصر کی معاونت اور ریاست کے خلاف ناامیدی کے پرچار کے الزام میں مقدمہ درج کیا ہے۔
مشتاق احمد نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اس سے پہلے پولیس نے ان سے کہا تھا کہ وہ اس طرح کی سرگرمی سے باز آ جائیں اور اپنا منہ بند رکھیں۔
انہوں نے کہا کہ چند دن پہلے دو پولیس افسر اُن کے گھر آئے تھے تاہم انہیں یا کسی اور ملزم کو اب تک حراست میں نہیں لیا گیا ہے۔ الزام ثابت ہونے کی صورت میں ملزمان کو انسدادِ دہشت گردی و غیر قانونی سرگرمیوں کے قوانین کی متعلقہ دفعات کے تحت سات سال کی قید اور جرمانہ ہوسکتا ہے۔
مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ وہ انصاف اور اپنے بیٹے کی باقیات کے حصول کے لیے جدوجہد کرتے رہیں گے۔
ایک اعلیٰ پولیس عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی کہ مشتاق احمد اور دوسرے ملزموں پر اُن کے بیٹے کی لاش کی حوالگی کے مطالبے کے لیے نہیں بلکہ بغیر اجازت مظاہرے کرنے اور لوگوں کو تشدد کے اُکسانے پر مقدمہ درج کیا۔