افغانستان میں طالبان چھ اگست سے اب تک متعدد صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر چکے ہیں جب کہ کئی میں سیکیورٹی فورسز سے جھڑپیں جاری ہیں۔
طالبان نے کابل سے صرف 150 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع غزنی شہر پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔
حالیہ چند روز کے دوران حکومتی سیکیورٹی فورسز کو عسکریت پسندوں کی پیش قدمی روکنے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
اگرچہ اب تک افغان دارالحکومت کابل خطرے کی زد میں نہیں آیا تاہم دیگر مقامات پر جنگجوؤں سے لڑائی میں ہونے والے نقصانات اور افغانستان کے لگ بھگ دو تہائی علاقے پر قبضے طالبان کو مضبوط بنا رہے ہیں۔
افغانستان میں 34 صوبے ہیں جن میں سے مندرجہ ذیل صوبوں کے دارالحکومتوں پر یا تو طالبان اپنا کنٹرول قائم کر چکے ہیں یا بیشتر حصہ ان کے قبضے میں آ چکا ہے۔
وہ صوبائی دارالحکومت جن پر طالبان کا قبضہ ہے
چھ اگست: افغانستان کے جنوب میں واقع صوبہ نمروز کے دارالحکومت زرنج پر طالبان قابض ہوئے تھے۔
زرنج وہ پہلا صوبائی دارالحکومت تھا جس پر طالبان اپنا کنٹرول قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ یہ پانچ سال بعد طالبان کا کسی بھی صوبائی دارالحکومت پر قبضہ تھا۔
قبل ازیں 2016 میں طالبان کچھ وقت کے لیے قندوز پر قابض ہوئے تھے۔ البتہ ان کا یہ قبضہ ختم کرا دیا گیا تھا۔
سات اگست: صوبہ جوزجان افغانستان کے شمال میں واقع ہے۔ اس کے دارالحکومت شبرغان کا کنٹرول طالبان نے سات اگست کو حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
آٹھ اگست: صوبہ سرِ پل بھی افغانستان کا شمالی صوبہ ہے۔ اس کے دارالحکومت کا نام بھی سرِ پل ہے۔ یہ تیسرا صوبہ تھا جس کے دارالحکومت کا کنٹرول حکومت کے ہاتھوں سے طالبان کے پاس گیا تھا۔ اس روز طالبان تین صوبائی دارالحکومتوں پر قابض ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔
آٹھ اگست: قندوز افغانستان کے شمال میں اہم اسٹرٹیجک شہر ہے۔ یہ صوبہ قندوز کا دارالحکومت ہے۔ طالبان نے آٹھ اگست کو یہاں قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ یہ شہر اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ یہاں سے شمالی افغانستان کے تمام صوبوں اور وسطی ایشیا میں داخل ہوا جا سکتا ہے۔
آٹھ اگست: اسی روز شام میں طالبان نے صوبہ تخار کے دارالحکومت تالقان کا کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ یہ بھی ملک کا شمالی صوبہ ہے۔
نو اگست: طالبان کے جنگجو نو اگست کو صوبہ سمنگان کے دارالحکومت ایبک کا انتظام سنبھالنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
10 اگست: شمالی صوبے بدخشاں کے دارالحکومت فیض آباد کے حوالے سے صوبائی کونسل کے ایک رکن نے بتایا تھا کہ جنگجو اس کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں۔
11 اگست: غزنی شہر صوبہ غزنی کا دارالحکومت ہے۔ اس کے حوالے سے ایک اعلیٰ سیکیورٹی عہدیدار نے تصدیق کی تھی کہ طالبان اس شہر پر قابض ہو چکے ہیں۔
12 اگست: اس روز طالبان نے تین صوبائی دارالحکومتوں کا کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ سب سے پہلے صوبہ باغدیس کے دارالحکومت قلعہ نو پر طالبان نے قبضہ کرنے کا باقاعدہ اعلامیہ جاری کیا۔
12 اگست: ہرات افغانستان کا تیسرا بڑا شہر ہے جو کہ صوبہ ہرات کا دارالحکومت بھی ہے۔ یہاں کئی جنگجو کمانڈر بھی طالبان کے خلاف سیکیورٹی فورسز کے ہمراہ لڑائی میں شامل تھے البتہ طالبان اس پر قابض ہو چکے ہیں۔
12 اگست: اسی روز طالبان نے ملک کے دوسرے بڑے شہر قندھار پر قابض ہونے کا بھی اعلان کیا۔ یہ افغانستان کے جنوب میں صوبہ قندھار کا دارالحکومت ہے۔
13 اگست: طالبان نے جمعے کو مزید چار صوبائی دارالحکومتوں پر قابض ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان میں سب سے پہلے ملک کے جنوبی صوبے ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ کا کنٹرول سنبھالنے کا بیان سامنے آیا۔ لشکر گاہ میں کئی دن سے لڑائی جاری تھی جب کہ سیکیورٹی فورسز نے کئی بار حملوں کو ناکام بنانے کا بھی دعویٰ کیا تھا۔
13 اگست: صوبہ ارزگان افغانستان کے وسطی صوبوں میں شامل ہے۔ اس کا دارالحکومت ترین کوٹ ہے حکومتی انتظامیہ اس پر کنٹرول برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہے۔
13 اگست: افغانستان کے شمال مغرب میں واقعے صوبے غور کے دارالحکومت فیروز کوہ (یا چغچران) بھی طالبان کے قبضے میں جا چکا ہے۔
13 اگست: اس روز طالبان نے چار صوبوں کے دارالحکومتوں کا کنٹرول سنبھالنے کا اعلان کیا۔ طالبان ملک کے مشرقی صوبے لوگر کے دارالحکومت پلِ علم پر قابض ہوئے۔ افغان صدر اشرف غنی کا تعلق بھی صوبہ لوگر سے ہے۔
کئی مقامات پر لڑائی جاری
طالبان اور حکومتی فورسز کے درمیان دیگر صوبوں میں بھی لڑائی جاری ہے۔ آخری اطلاعات کے مطابق صوبہ فراہ کے دارالحکومت میں بھی شدید جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔ طالبان کی جانب سے آگے بڑھنے کے دعوے بھی سامنے آ رہے ہیں البتہ ان کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔
واضح رہے کہ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ طالبان افغانستان کے دارالحکومت کابل کو 30 روز میں الگ تھلگ کرنے کے بعد تقریباً 90 دن میں ممکنہ طور پر اس پر قبضہ کر سکتے ہیں۔
امریکی محکمۂ دفاع کے ایک عہدے دار نے اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر بدھ کو خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو امریکی انٹیلی جنس رپورٹس کے حوالے سے بتایا تھا کہ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے دوران ملک بھر میں طالبان کی فتوحات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کابل حکومت کتنے عرصے تک اپنا وجود برقرار رکھ سکے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ حتمی نتیجہ نہیں ہے۔ افغان فورسز اپنی دفاعی صلاحیت کو بڑھا کر طالبان کی پیش قدمی کو پلٹ بھی سکتی ہیں۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ اور ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔