اسلام آباد —
پاکستان میں ماہرینِ نفسیات نے بدامنی اور معاشی مسائل کو ذہنی امراض کی شرح میں مسلسل اضافے کی بنیادی وجوہات قرار دیتے ہوئے لوگوں کو حقیقت پسندانہ رجحانات اپنانے پر زور دیا ہے تاکہ ذہنی تناؤ میں کمی لائی جا سکے۔
دنیا بھر میں 10 اکتوبر ذہنی صحت کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس سال کا موضوع ذہنی صحت اور بڑی عمر کے بالغ افراد ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق پسماندگی، پُر تشدد تنازعات، قدرتی آفات اور دیگر ہنگامی حالات سے دوچار افراد میں ذہنی امراض خصوصاً تناؤ جیسے مسائل عموماً زیادہ ہوتے ہیں۔
عالمی ادارہِ صحت کا کہنا ہے کہ جنگ اور دیگر سانحات کے بعد ذہنی امراض کی شرح دو گنا تک بڑھ جانے کا اِحتِمال ہوتا ہے۔
پاکستان میں بھی طبی ماہرین اس موقف کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ملک میں کئی برسوں سے جاری خون ریز بد امنی اور معاشی تنزلی کے باعث معاشرتی سطح پر ذہنی تناؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اسلام آباد کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے شعبہ ذہنی امراض کے سربراہ ڈاکٹر رضوان تاج نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سلامتی سے متعلق خدشات اور غربت سے جڑے مسائل کی وجہ سے لوگ ہر پل مختلف الجھنوں کا شکار ہیں۔
’’یہ چیزیں کئی مہینوں نہیں بلکہ سالوں سے چل رہی ہیں اور آگے بھی کوئی حل یا راستہ نظر نہیں آ رہا ہے ... (تو) ایک فطری عمل ہے کہ اس کے نتیجے میں معاشرے میں ذہنی تناؤ کی شرح کافی حد تک زیادہ ہو جاتی ہے۔‘‘
پاکستان میں ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی تعداد سے متعلق مستند اعداد و شمار دستیاب نہیں، البتہ ماہرین کے بقول یہ کہنا غلط نا ہو گا کہ 18 کروڑ افراد پر مشتمل آبادی کا نصف حصہ کسی نا کسی ذہنی مسئلے کا شکار ہے۔
ڈاکٹر رضوان تاج کا کہنا ہے کہ دیہات میں رہائش پذیر بیشتر افراد چونکہ شہری زندگی سے جڑے مسائل سے براہ راست متاثر نہیں ہوئے ہیں، اس وجہ سے اُن میں ذہنی امراض کی شرح نسبتاً کم ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ انفرادی کوشش سے ذہنی تناؤ میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔
’’ہر پاکستانی اپنے وسائل میں رہنا سیکھے ... اگر مسائل زیادہ ہیں اور وسائل کم تو اس کو بیٹھ کر سوچنا چاہیئے کہ اس کا کیا حل ہے اور وہ صورت حال کس طرح بہتر کر سکتا ہے۔
’’آپ اپنی زندگی میں توازن رکھیں اور مستقبل سے متعلق بہت زیادہ خواہشات نا رکھیں، حقیقیت پر مبنی خیالات کو اپنائیں اور بڑے خواب و خیال میں نا رہیں۔’’
ڈاکٹر رضوان تاج نے کہا کہ آبادی میں اضافہ بھی لوگوں میں ذہنی تناؤ کی بڑھتی ہوئی شرح کی بڑی وجہ ہے۔
اُنھوں نے کنبہ چھوٹا رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے معیاری زندگی کے حصول کو یقینی بنایا جا سکتا ہے اور اس سے ملک بھی ترقی کرے گا۔
دنیا بھر میں 10 اکتوبر ذہنی صحت کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس سال کا موضوع ذہنی صحت اور بڑی عمر کے بالغ افراد ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق پسماندگی، پُر تشدد تنازعات، قدرتی آفات اور دیگر ہنگامی حالات سے دوچار افراد میں ذہنی امراض خصوصاً تناؤ جیسے مسائل عموماً زیادہ ہوتے ہیں۔
عالمی ادارہِ صحت کا کہنا ہے کہ جنگ اور دیگر سانحات کے بعد ذہنی امراض کی شرح دو گنا تک بڑھ جانے کا اِحتِمال ہوتا ہے۔
پاکستان میں بھی طبی ماہرین اس موقف کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ملک میں کئی برسوں سے جاری خون ریز بد امنی اور معاشی تنزلی کے باعث معاشرتی سطح پر ذہنی تناؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اسلام آباد کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے شعبہ ذہنی امراض کے سربراہ ڈاکٹر رضوان تاج نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سلامتی سے متعلق خدشات اور غربت سے جڑے مسائل کی وجہ سے لوگ ہر پل مختلف الجھنوں کا شکار ہیں۔
’’یہ چیزیں کئی مہینوں نہیں بلکہ سالوں سے چل رہی ہیں اور آگے بھی کوئی حل یا راستہ نظر نہیں آ رہا ہے ... (تو) ایک فطری عمل ہے کہ اس کے نتیجے میں معاشرے میں ذہنی تناؤ کی شرح کافی حد تک زیادہ ہو جاتی ہے۔‘‘
پاکستان میں ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی تعداد سے متعلق مستند اعداد و شمار دستیاب نہیں، البتہ ماہرین کے بقول یہ کہنا غلط نا ہو گا کہ 18 کروڑ افراد پر مشتمل آبادی کا نصف حصہ کسی نا کسی ذہنی مسئلے کا شکار ہے۔
ڈاکٹر رضوان تاج کا کہنا ہے کہ دیہات میں رہائش پذیر بیشتر افراد چونکہ شہری زندگی سے جڑے مسائل سے براہ راست متاثر نہیں ہوئے ہیں، اس وجہ سے اُن میں ذہنی امراض کی شرح نسبتاً کم ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ انفرادی کوشش سے ذہنی تناؤ میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔
’’ہر پاکستانی اپنے وسائل میں رہنا سیکھے ... اگر مسائل زیادہ ہیں اور وسائل کم تو اس کو بیٹھ کر سوچنا چاہیئے کہ اس کا کیا حل ہے اور وہ صورت حال کس طرح بہتر کر سکتا ہے۔
’’آپ اپنی زندگی میں توازن رکھیں اور مستقبل سے متعلق بہت زیادہ خواہشات نا رکھیں، حقیقیت پر مبنی خیالات کو اپنائیں اور بڑے خواب و خیال میں نا رہیں۔’’
ڈاکٹر رضوان تاج نے کہا کہ آبادی میں اضافہ بھی لوگوں میں ذہنی تناؤ کی بڑھتی ہوئی شرح کی بڑی وجہ ہے۔
اُنھوں نے کنبہ چھوٹا رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے معیاری زندگی کے حصول کو یقینی بنایا جا سکتا ہے اور اس سے ملک بھی ترقی کرے گا۔