عمران خان اور طاہر القادری کی سربراہی میں لاہور سے چلنے والے 'آزادی مارچ' اور 'انقلاب مارچ' لگ بھگ 35 گھنٹوں کے سفر کے بعد اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔
'پاکستان تحریکِ انصاف' اور 'پاکستان عوامی تحریک' کے ہزاروں کارکنوں پر مشتمل دونوں جلوس جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب اسلام آباد میں داخل ہوئے جہاں دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے حکومت کے مستعفی ہونے تک دھرنے دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔
اسلام آباد کی انتظامیہ نے پاکستان عوامی تحریک کو 'زیرو پوائنٹ' پر جلسے کی اجازت دی تھی جس پر احتجاج کے بعد طاہر القادری اور ان کے حامیوں کو دارالحکومت کے علاقے خیابانِ سہروردی پر جلسے کی اجازت دیدی گئی ہے۔
'تحریکِ انصاف' کا جلوس دارالحکومت کی 'کشمیر ہائی وے' پر بنائی گئی جلسہ گاہ پہنچ کر ختم ہوگیا ہے۔
تحریک کے سربراہ عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہفتے کی سہ پہر تین بجے سے اپنے دھرنے کا آغاز کریں گے جو "حقیقی آزادی" کے حصول تک جاری رہے گا۔
اسلام آباد پہنچنے کے بعد 'کشمیر ہائی وے' پر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے ایک بار پھر وزیرِاعظم میاں نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ دہرایا۔
انہوں نے کہا کہ انہیں دھاندلی سے بننے والی حکومت قبول نہیں اور وہ ملک میں نئے انتخابات چاہتے ہیں۔
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے حکومت کے اقدامات کا ایک سال تک انتظار کیا لیکن تحفظات دور نہ ہونے پر ان کے پاس سڑک پر نکلنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ملک مین جمہوریت ہے ہی نہیں لہذا اس کے ڈی ریل ہونے کا خدشہ بھی بے بنیاد ہے۔
تیز بارش کے دوران ہونے والے جلسے کے اختتام پر عمران خان نے اپنے کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ ہفتے کی سہ پہر تین بجے دوبارہ جلسہ گاہ پہنچ جائیں جہاں حکومت کے خاتمے تک دھرنا دیا جائے گا۔
حکومت نے اولاً لاہور اور پنجاب کے مختلف شہروں میں ان دونوں جلوسوں کو روکنے کے لیے کنٹینرز لگا کر راستے بند کر دیے تھے لیکن جمعرات کو انھیں جزوی طور پر ہٹا دیا گیا تھا۔
اسلام آباد میں بھی رواں ہفتے کے اوائل سے تمام داخلی راستوں کے علاوہ شہر کے اہم مقامات کو جانے والی سڑکیں کنٹینرز لگا کر بند کر دی گئی تھیں لیکن جمعے کو یہاں بھی جزوی طور پر راستے کھول دیے گئے۔
لیکن غیر ملکی سفارتخانوں اور اہم سرکاری عمارتوں والا علاقہ 'ریڈزون' مکمل طور پر سیل ہے اور یہاں کسی بھی طرح کی نقل و حرکت کی اجازت نہیں۔
وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ احتجاج کرنے والوں کو ان کے جمہوری حق سے نہیں روکا جائے گا لیکن اگر کسی نے خلاف قانون کام کرتے ہوئے ’ریڈ زون‘ میں داخل ہونے کی کوشش کی تو قانون حرکت میں آئے گا۔
حکام کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور اس کے ارد گرد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 25 ہزار سے زائد اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔