پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بدھ کو ہونے والے عام انتخابات کےبعد حکومت بنانے کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریکِ انصاف نے کوششیں تیز کر دی ہیں۔
انتخابی نتائج کے مطابق کسی بھی جماعت کو صوبائی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل نہیں ہوئی ہے جس کے بعد صوبے کی دونوں بڑی جماعتوں نے حکومت سازی کے لیے ارکانِ اسمبلی کی مطلوبہ تعداد پوری کے لیے آزاد امیدواروں سے رابطے تیز کردیے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز نے جمعے کی شام لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ پنجاب میں اکثریت ملنے پر حکومت بنانا اُن کا حق ہے اور اگر ان کی جماعت کو حکومت بنانے سے روکا گیا تو وہ بھرپور مزاحمت کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریت ہے اور صوبے میں حکومت بنانے کے لیے ان کی جماعت پیپلز پارٹی، ہم خیال آزاد ارکان اور مسلم لیگ (ق) سے بھی بات کرے گی۔
دوسری جانب پاکستان تحریکِ انصاف نے آزاد امیدواروں سے رابطے تیز کردیے ہیں۔ پی ٹی آئی آزاد نے امیدواروں سے رابطے کرنے کہ ذمہ داری جہانگیر ترین اور علیم خان کے سپرد کی ہے۔
علیم خان نے ہفتے کو وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اور جہانگیر ترین نے ملتان، خانیوال، ڈیرہ غازی خان اور لیہ سے کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں سے ملاقاتیں کرلی ہیں اور ان تمام نے پی ٹی آئی کی حمایت کا یقین دلایا ہے۔
علیم خان نے کہا کہ تمام امیدواروں نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ پی ٹی آئی میں شامل ہوجائیں گے اور اس بات کا اعلان جلد عمران خان سے بنی گالہ میں ان کی ملاقات کے بعد کیا جائے گا۔
اب تک آنے والے انتخابی نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) پنجاب اسمبلی میں 129 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہے جب کہ تحریک انصاف کے پاس 123 نشستیں ہیں۔
اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کے سات ارکان ہیں جب کہ منتخب ہونے والے 28 آزاد ارکان اس بات کا تعین کریں گے کہ دونوں بڑی جماعتوں میں سے کون صوبے میں حکومت بنائے گا۔
پنجاب میں کسی بھی جماعت کو حکومت بنانے کے لیے اسمبلی کے 297 ارکان میں سے 149 کی حمایت درکار ہوگی اور ایسے میں آزاد ارکان اہم کردار ادا کریں گے۔
دونوں جماعتوں کی جانب سے تاحال اپنے وزیرِ اعلٰی کے امیدواروں کا اعلان نہیں کیا گیا۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب میں حمزہ شہباز قائدِ ایوان ہو سکتے ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے کئی رہنما وزارتِ اعلیٰ کی دوڑ میں شریک ہیں۔