پاکستان کے حالیہ انتخابات میں مذہب کی بنیاد پر سیاست کے رجحان نے فروغ پایا ہے۔
سال 2018ء کے عام انتخابات میں جہاں بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے انتخابی عمل میں حصہ لیا، وہیں دائیں بازو کی سیاسی اور مذہبی سیاسی جماعتوں نے بھی حصہ لیا۔
’تحریک لبیک پاکستان‘ نے 25 جولائی، 2018ء کو ہونے والے عام انتخابات میں ملک بھر میں اپنے امیدوار کھڑے کیے، جن کا انتخابی نشان ’کرین‘ تھا۔ پاکستان کے صوبہٴ سندھ سے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی ایس 115 سے مفتی محمد قاسم منتخب ہوئے ہیں۔
پاکستان کے صوبہٴ پنجاب سے بھی صوبے بھر میں اپنے امیدوار کھڑے کرکے اپنی مضبوط موجودگی کا احساس دلایا ہے۔ پنجاب کے صوبائی درالحکومت لاہور میں ’تحریک لبیک پاکستان‘ نے قومی اسمبلی کے 14 حلقوں سے اپنے امیدوار کھڑے کیے۔ یہاں سے کوئی کامیابی تو اُن کے حصے میں نہیں آئی، لیکن وہ ووٹوں کی گنتی کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر رہی۔
’تحریک لبیک پاکستان‘ نے لاہور کے 14 قومی اسمبلی کے حلقوں سے مجموعی طور پر ایک لاکھ چالیس ہزار چھ سو اٹھائیس ووٹ حاصل کیے ہیں اور بائیں بازو کی نظریاتی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
تحریک لبیک کے این اے 127 سے امیدوار محمد ظہیر نے تمام حلقوں میں سب سے زیادہ تئیس ہزار ایک سو چالیس ووٹ لیے ہیں۔
اس حلقے سے سابق وزیر اعظم کی بیٹی مریم نواز نے انتخابی عمل میں حصہ لینا تھا۔ لیکن، ’ایون فیلڈ ریفرنس‘ کیس میں سزا یافتہ ہونے کے باعث جیل میں پانی سزا کاٹ رہی ہیں۔ اسی طرح تحریک لبیک کی دو خواتین این اے 125 سے میمونہ حامد نے چودہ ہزار دو سو چھہتر اور این اے 124 سے سمیرا نورین نے چودہ ہزار آٹھ سو بتیس ووٹ لیے ہیں۔
دائیں بازو کی دوسری مذہبی سیاسی جماعتوں نے متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے انتخابی دنگل میں حصہ لیا ہے، جس میں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، جمیعت علمائے پاکستان اور دیگر جماعتیں شامل ہیں۔ اسی طرح مجلس وحدت مسلمین شیعہ جماعت ہے جس نے کراچی، کوئٹہ اور پنجاب کے مختلف شہروں میں اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے۔ بعض حلقوں میں تحریک انصاف کے امیدواروں کی حمایت بھی کی ہے۔
’ملی مسلم لیگ‘ نے، جو ’جماعت الدعوۃ‘ کا سیاسی ونگ ہے، ’تحریک اللہ اکبر‘ کے ساتھ مل کر 2018ء کے انتخابات میں حصہ لیا جن کے امیدواروں نے لاہور سے اوسطاً ہر قومی اسمبلی کے حلقہ سے 1800 ووٹ لیے ہیں۔
’تحریک لبیک پاکستان‘ کے ترجمان محمد اعجاز اشرفی نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں میں ان کی جماعت کا منشور تیزی سے مقبول ہو رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ لاہور میں ان کی جماعت تیسرے نمبر پر رہی ہے۔ اعجاز اشرفی کہتے ہیں کہ انہیں صرف ان کے جماعت کے کارکنوں نے ہی نہیں بلکہ دیگر جماعتوں کے ووٹروں نے بھی ووٹ دئیے ہیں۔
پاکستان میں ’جیو ٹی وی‘ سے منسلک سینئر صحافی افتخار احمد سمجھتے ہیں کہ ملک میں مذہبی سیاسی ووٹ بڑھنے سے عدم برداشت میں اضافہ ہوتا ہے اور عام طور پر ایسے رجحانات کو سیاست میں مذہبی عدم برداشت کے حوالے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ افتخار احمد کے مطابق مذہبی سیاسی جماعتیں ملک کی ترقی میں اپنا کچھ خاص حصہ نہیں ڈال سکیں۔
بقول اُن کے، "ایسی جماعتوں کو بنانے میں دوسرے ممالک کا پیسہ استعمال ہوتا ہے۔ غیر ملکی رقوم سے مساجد اور مدارس بنائی جاتی ہیں اور اب یہ کاروبار بن چکا ہے۔ لیکن، انہیں اور ایم ایم اے سمیت دیگر مذپبی جماعتوں کو بنانے والے اپنا حشر ضرور یاد رکھیں"۔
کالم نویس اور دانشور آئی اے رحمٰن نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’تحریک لبیک‘ جماعت اسلامی کی نسبت زیادہ تیزی سے معاشرے میں سرایت کر رہی ہے اور آئندہ الیکشنوں میں ان کا ووٹ بینک بڑھے گا۔
بقول اُن کے، "تحریک لبیک کو بنانے میں ہماری ایسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے، کیونکہ اس جماعت کو بنانے کا مقصد نواز شریف کا ووٹ بینک کاٹنا ہے۔ ایسٹیبلشمنٹ نے بہت پہلے یہ طے کر لیا تھا کہ نواز شریف کے ووٹ بینک کو توڑا جائے گا جس میں وہ ابھی تک کامیاب نظر آتے ہیں"۔
پاکستان مسلم لیگ کے رہنماء ملک احمد خان نے کہا ہے کہ ’’دائیں بازو کی ایسی مذہبی سیاسی جماعتیں ایک حقیقت ہیں اور اب ان کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنا ہوگا۔ ایسی سیاسی جماعتیں ایک خاص مقصد کے لیے بنائی جاتی ہیں اور ان کا مقصد اب سب جان چکے ہیں‘‘۔