الیکشن کمیشن کی طرف سے دو روز کی توسیع کے بعد اتوار کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا آخری دن تھا جب کہ ملک کے مختلف شہروں سے پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماؤں اور وکلا کی طرف سے ہراساں کیے جانے کے الزامات مسلسل سامنے آ رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے جمعے کو چاروں صوبوں کے الیکشن کمشنرز، چیف سیکریٹریز اور آئی جی پولیس کو ہدایات جاری کی تھیں۔
بعدازاں پی ٹی آئی کے امیدواروں نے بڑی تعداد میں کاغذات نامزدگی جمع کرائے لیکن مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور ٹکٹ ہولڈرز کی گرفتاری کے لیے پولیس کے چھاپوں کا سلسلہ جاری رہا۔
ملک کے مختلف اضلاع میں پی ٹی آئی کے بیش تر رہنماؤں نے گرفتاری سے بچنے کے لیے وکلا کی وساطت سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں اور وہ خود تاحال منظر سے غائب ہیں۔
اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق الیکشن کمیشن ایک فیصلے میں پی ٹی آئی کو بلے کے نشان پر انتخابات میں حصہ لینے سے بھی روک دیا گیا ہے۔
ان حالات میں یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ ایک مقبول سیاسی جماعت کے خلاف ملک بھر میں ہونے والی کارروائیوں، پکڑ دھکڑ اور انتخابی نشان سے محروم کر دیے جانے کے بعد ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کی کی ساکھ کیا ہوگی؟
سات ماہ بعد گرفتاریوں میں اچانک تیزی
نو مئی کے واقعات کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں پی ٹی آئی کے سینکڑوں رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے تھے۔
ان مقدمات میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان سمیت سابق وفاقی و صوبائی وزرا، پی ٹی آئی کے مرکزی، صوبائی و ضلعی عہدیداران اور سرگرم کارکنوں کو نامزد کیا گیا تھا۔ بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں۔ پی ٹی آئی کے بیش تر رہنما روپوش ہوگئے جنہیں عدالتوں نے اشتہاری قرار دے رکھا ہے۔
تاہم الیکشن کا عمل شروع ہوتے ہی ان ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس نے چھاپوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے جسے پی ٹی آئی اور بعض سیاسی مبصرین ایک منظم کارروائی کے طور پر دیکھتے ہیں۔
پولیس ان کارروائیوں کو اشتہاری ملزمان کے خلاف جاری مہم کا حصہ قرار دیتی ہیں۔
پولیس کا مؤقف ہے کہ جن ملزمان کو عدالتوں نے اشتہاری قرار دیا ہے اور ان کے باقاعدہ وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے ہیں اور انہی عدالتی احکامات پر عمل درآمد ک لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔
ٹکٹ ہولڈرز کے اہل خانہ پر مقدمات
پنجاب کے مختلف اضلاع میں تین روز کے دوران پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈرز، ان کے اہل خانہ اور قریبی رشتے داروں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 216 کے تحت متعدد مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ ان تمام مقدمات میں پولیس افسران مدعی ہیں۔
تعزیرات پاکستان کی دفعہ 216 کسی سنگین مقدمے میں ملوث اشتہاری ملزم کو پناہ دینے اور اسے پولیس کی آمد پر فرار کرانے سے متعلق ہے۔ پی ٹی آئی کے جو لوگ اشتہاری ملزم قرار پا چکے ہیں ان کے اہل خانہ اور رشتے داروں کے خلاف اسی دفعہ کے تحت مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔
حامد ناصر چٹھہ کو وسطی پنجاب کے قد آور سیاست دانوں میں شمار کیا جاتا ہے جو کہ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات اور 1986 سے 1988 تک قومی اسمبلی کے اسپیکر رہے ہیں۔
حامد ناصر چٹھہ اپنے سیاسی کرئیر میں مسلم لیگ سے وابستہ رہے لیکن ان کے دونوں بیٹے، سابق ضلع ناظم گوجرانوالہ فیاض چٹھہ اور محمد احمد چٹھہ پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔
سال 2018 کے انتخابات میں محمد احمد چٹھہ نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 79 سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا جس میں انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی۔اب یہ حلقہ این اے 66 ہوچکا ہے جہاں سے حامد ناصر چٹھہ کے بیٹے محمد احمد چٹھہ ایک بار پھر پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں۔
وزیر آباد پولیس نے حامد ناصر چٹھہ اور ان کے دونوں بیٹوں کے خلاف 21 دسمبر کو ایک نیا مقدمہ درج کیا ہے۔ حامد ناصر چٹھہ پر اپنے بیٹے احمد چٹھہ کو پناہ دینے اور پولیس کے چھاپے کے دوران گھر سے فرار کرانے کا الزام ہے۔
احمد چٹھہ پر راہوالی کینٹ میں نو مئی کو ہونے والی ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ اور قتل کے مقدمات ہیں جن میں وہ اشتہاری قرار دے جاچکے ہیں۔
ایف آئی آر کے مطابق "احمد چٹھہ کی گرفتاری کے لیے پولیس نے چھاپہ مارا تو حامد ناصر چٹھہ، سابق ضلع ناظم فیاض چٹھہ، ظفر اللہ، تقی عباس اور احمد جہانگیر نے شور مچا کر احمد چٹھہ کو بھگا دیا۔"
سابق رکن قومی اسمبلی اور این اے 77 سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر میاں طارق محمود کو پناہ دینے کے الزام میں ان کے بیٹے میاں حسن یوسف ایڈووکیٹ اور بیوہ بھابھی مسز شازیہ بانو کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر بلال ناصر چیمہ کہتے ہیں کہ ان کے بھائی جمال ناصر چیمہ گزشتہ ایک سال سے کاروبار کے لیے دبئی میں ہیں لیکن پولیس نے جمال کو پناہ دینے اور فرار کرانے کے الزام میں ان کے رشتے داروں کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کرلیا ہے۔
بلال ناصر چیمہ کا کہنا ہے کہ"اگر پولیس جمال ناصر چیمہ کا ریکارڈ نکلوا لے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا، جمال کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ پی ٹی آئی کا ٹکٹ ہولڈر ہے اور اگلے الیکشن میں بھی حصہ لے رہا ہے۔"
پنجاب کے سابق وزیرِ اعلیٰ اور پی ٹی آئی کے صدر چوہدری پرویز الٰہی ان دنوں حراست میں ہیں اور ان کی اہلیہ قیصرہ الہی نے الزام عائد کیا تھا کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 64 سے ان کے کاغذات نامزدگی وصول نہیں کیے جارہے۔ تاہم تین دین کے کوششوں بعد اتوار کو اس حلقے کے لیے ان کے کاغذاتِ نامزدگی وصول کرلیے گئے۔
مسز قیصرہ پرویز اس سے قبل پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 32 سے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرا چکی ہیں۔
پی ٹی آئی کے سابق رہنما عثمان ڈار کی والدہ ریحانہ امتیاز ڈار نے ہفتہ کے روز اپنے وکلا کے ہمراہ قومی حلقہ این اے 71 اور صوبائی حلقہ پی پی 46 میں کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔
قومی اسمبلی کے حلقہ میں ان کا مقابلہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کے ساتھ ہوگا جوکہ وفاقی وزیر دفاع رہے ہیں۔
عثمان ڈار کی والدہ ریحانہ امتیاز ڈار نے چند روز قبل پولیس کی جانب سے ناروا سلوک کا الزام عائد کیا تھا۔ سیالکوٹ کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ پولیس اہل کار اشتہاری ملزم عمر ڈار کی گرفتاری کے لیے گئی تھی۔ عمر ڈار پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے سابق معاون خصوصی عثمان ڈار کے بھائی ہیں۔
عثمان ڈار کی طرف سے سیاست سے کنارہ کشی کے اعلان کے بعد ان کی والدہ ریحانہ امتیاز ڈار نے پی ٹی آئی کی طرف سے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا تھا۔
وکلا اور پولیس آمنے سامنے
پنجاب کے مختلف شہروں میں کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے دوران وکلا کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئی ہیں جن میں وکلا کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں۔
وکلا کی طرف سے الزام لگایا گیا ہے کہ وہ جب کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لیے ریٹرننگ افسران کے دفاتر پہنچے تو پولیس کی طرف سے مبینہ طور پر انہیں روکنے کی کوشش کی گئی۔
سیالکوٹ کے تھانہ سول لائن میں ریٹرننگ آفیسر کے دفتر میں ہلڑ بازی اور پولیس وین کے شیشے توڑنے پر پچیس وکلا کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ مقدمے میں پسرور بار کے صدر اور سیکرٹری سمیت 10 وکلا کو نامزد کیا گیا ہے۔ یہ وکلا حلقہ این اے 72 سے پی ٹی آئی کے امیدوار حیدر گل کے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے لیے آئے تھے۔
وزیر آباد میں تحریک انصاف کے وکلاء اور پولیس اس وقت آمنے سامنے آ گئے جب این اے 66 کے لیے پی ٹی آئی کے امیدوار 66 محمد احمد چٹھہ کے وکلاء کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے لیے ریٹرننگ آفیسر کے دفتر پہنچے۔ انہیں مبینہ طور پر پولیس کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، تاہم ہفتہ کے روز وکلا کاغذات نامزدگی جمع کروانے میں کامیاب رہے۔
ڈیوٹی پر موجود پولیس حکام کا کہنا تھا کہ وکلاء نے ریٹرننگ افسر کے دفتر کا دروزاہ توڑنے کی کوشش کی جس پر انہیں روکا گیا۔ جب کہ احمد چٹھہ کے وکلا نے الزام لگایا کہ پولیس نے وکلاء سے احمد چٹھہ کے کاغذات نامزدگی چھین لیے تھے۔
پولیس کے کچھ سینیئر آفیسرز سے رابطہ کرکے ان کا موقف لینے کی کوشش کی گئی تو ایک سینئر افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اشتہاری ملزمان کے خلاف کارروائی کسی ایک ضلع یا صوبے میں نہیں ہورہی۔
پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ہم اپنی محکمانہ ذمہ داری ادا کررہے ہیں۔ ہم پر کسی کے خلاف کارروائی کے لیے کوئی دبائو نہیں۔ صرف ان ملزمان کو حراست میں لیا جارہا ہے جن کے وارنٹ گرفتاری مجاز عدالت سے جاری ہوئے ہیں۔
پولیس افسر کے بقول "اگر کسی کو پولیس سے شکایت ہے تو عدالت اور الیکشن کمیشن کے فورمز موجود ہیں جہاں رابطہ کیا جاسکتا ہے۔"
انتخابی نشان؟
الیکشن کمیشن کی طرف سے پی ٹی آئی کو بلے کے انتخابی نشان سے محروم کردینے کے فیصلے کے بعد اگرچہ اعلی عدالتوں میں الیکشن کمیشن کے خلاف اپیلوں کا مرحلہ باقی ہے تاہم پی ٹی آئی کے امیدواروں کو اس فیصلے سے دھچکا ضرور لگا ہے۔
انتخابی شیڈول کے مطابق امیدواروں کو 13 جنوری کو نشانات الاٹ کئے جائیں گے۔اگر عدالت نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر بلے کا نشان بحال کردیا تو اس سے پی ٹی آئی کو سیاسی فائدہ پہنچے گا ورنہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کو دوسرے آزاد انتخابی نشانات پر الیکشن لڑنا ہوگا۔
الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق آزاد امیدواروں کےلئے 173 نشانات موجود ہیں جبکہ پاکستان کی رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی تعداد 175 ہے جن کی لسٹ ویب سائٹ پر موجود ہے اور ہر سیاسی جماعت کا الگ لگ انتخابی نشان ہے۔
پی ٹی آئی سے انتخابی انشان واپس لینے کے فیصلے سے متعلق تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں ابھی ایک بہت اہم مرحلہ باقی ہے اور بلے کے نشان سے محرومی اور اس کے اثرات پر بات کرنا قبل از وقت ہوگا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ان کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ سے پی ٹی آئی کی اپیل منظور ہو جائے گی اور انہیں اس معاملے میں ریلیف مل جائے گا۔
سینئر تجزیہ کار عمران میر کہتے ہیں کہ ملک کی ایک بڑی پارٹی کو تکنیکی بنیاد پر انتخابی نشان سے محروم کرنا انتخابات کی شفافیت سے متعلق سوالات کو جنم دے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے الیکشن کی ساکھ متاثر ہوگی اور الیکشن کمیشن کی ساکھ پر تو پہلے ہی کافی سوالات اٹھ رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسے الیکشن کو کوئی بھی نہیں مانے گا اور پی ٹی آئی بھی احتجاج کرے گی۔ ایسی صورت میں ہونے والے الیکشن کے بعد بھی ملک میں بے چینی کی نئی لہر پیدا ہوگی اور مسائل حل ہونے کی بجائے ہم ایک نئے بحران کی طرف جائیں گے۔
ان کے بقول انتخاب میں عوام کو فیصلہ کرنے دینا چاہیے کہ وہ آئندہ کس پارٹی کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں۔