پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت نے ایک سال مکمل کر لیا ہے۔ عمران خان حکومت کے ایک سالہ دور اقتدار کے دوران خارجہ پالیسی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتے رہے۔
گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے اسلام آباد کی توجہ پاک امریکہ تعلقات، افغان امن عمل جب کہ بھارت کے ساتھ کشیدہ صورتحال پر مرکوز رہی۔
حال ہی میں نئی دہلی کی طرف سے متنازع جموں و کشمیر کی خصوصی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کی وجہ سے نہ صرف پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ ہو گیا بلکہ یہ صورتحال پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے اس وقت ایک غیر معمولی چیلنج بن کر سامنے آئی ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ عمران خان کی حکومت نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے نمایاں پیش رفت کی ہے اور افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو ایک نئی جہت ملی ہے، جب کہ عرب ممالک بشمول سعودی عرب، متحدہ عرب امارت اور قطر کے ساتھ بھی تعلقات کو بہتر کرنے میں پیش رفت ہوئی ہے۔ تاہم، بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں اگر ملک کی سیاسی اور اقتصادی صورتحال بہتر ہوتی تو یقینی طور پر خارجہ پالیسی کے محاذ پر اس کی وجہ سے مزید مثبت اثرات مرتب ہوسکتے تھے۔
پاک امریکہ تعلقات اور افغان امن عمل
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار اور سینئر صحافی زاہد حسین کا کہنا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات گزشتہ سات دہائیوں سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ ان کے بقول، ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد پاکستان سے متعلق ان کی سخت ٹوئٹس کا اثر باہمی تعلقات پر بھی پڑا۔ زاہد حسین کہتے ہیں کہ اس کے باوجود دونوں ممالک کے ایک دوسرے کے ساتھ مفادات وابستہ ہیں اور موجودہ صورتحال میں دونوں کے مفادات میں ہم آہنگی نظر آ رہی ہے۔
زاہد حسین کے مطابق، اب امریکہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے افغان تنازع کے سیاسی حل کا خواہاں ہے جب کہ پاکستان کا بھی یہی موقف رہا ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن کا حصول سیاسی تصفیے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
اس تناظر میں زاہد حسین کے بقول، پاکستان نے امریکہ کی خواہش پر افغان امن عمل میں سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے، جس کی وجہ سے اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔
زاہد حسین کا کہنا ہے کہ اگرچہ افغانستان کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ لیکن، دونوں ملکوں کے اسٹرٹیجک مفادات میں مکمل اتفاق نہیں ہے۔ ان کے مطابق، پاک امریکہ تعلقات میں بہتری وقتی ہے آئندہ یہ تعلقات کیا رخ اختیار کریں گے یہ دیکھنا ہو گا۔
پاک چین تعلقات اور سی پیک
چین پاکستان کا روایتی حلیف سمجھا جاتا ہے اور ماہرین کے مطابق حالیہ سالوں میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبوں کی وجہ سے اسلام آباد اور بیجنگ کے تعلقات کو معاشی شعبوں میں بھی وسعت ملی ہے۔ تاہم، عمران خان کی حکومت کے آنے کے بعد بظاہر سی پیک کے منصوبے سست روی کا شکار ہیں اور بعض مبصرین کے خیال میں اس کا اثر دنوں ملکوں کی تعلقات پر بھی پڑ سکتا ہے۔
تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ یہ تاثر درست نہیں ہے کیوں کہ ان کے بقول، پاکستان اور چین کے اسٹریٹجک تعلقات کئی دہائیوں پر محیط ہیں جو حالیہ سالوں میں مزید بہتر ہوئے ہیں۔
زاہد حسین تسلیم کرتے ہیں کہ سی پیک کے حوالے سے عمران خان کی حکومت کے تحفظات کا تعلق اس منصوبے کے طریقہ کار اور ترجیحات سے تھا۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان اور چین کے تعلقات خراب نہیں ہوئے۔
زاہد حسین کہتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کی زیادہ توجہ سی پیک کے تحت ہونے والی سرمایہ کاری پر تھی۔ لیکن موجودہ حکومت ان منصوبوں کا ازسر نو جائزہ لے رہی کہ کیا یہ منصوبے معاشی طور پر سود مند ہیں یا نہیں۔ ان کے بقول، سی پیک منصوبہ ختم نہیں ہو سکتا۔
پاک بھارت تعلقات
پاکستان کے وزیر اعظم عمران نے حکومت سنبھالنے پر کہا تھا کہ وہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا ایک بیان بھی سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے بھارت کے ایک قدم بڑھانے کے عوض دو قدم آگے بڑھنے کی پیش کش کی تھی۔ پاکستان کے وزیر اعظم کی پیش کش کو بھارت مسترد کرتا رہا ہے۔ بھارت کا یہ موقف رہا ہے کہ جب تک پاکستان دہشت گردی ختم نہیں کرتا اس سے بات نہیں ہو سکتی۔
رواں سال بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں سیکورٹی فورسز کی بس پر ہونے والے خود کش حملے میں 40 سے زائد اہل کار ہلاک ہو گئے تھے۔ بھارت نے اس کارروائی کا الزام پاکستان پر عائد کیا تھا جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ آ گیا تھا۔ دونوں ممالک کی فضائیہ نے ایک دوسرے کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر کے اہداف کو نشانہ بنانے کے دعوے کیے تھے۔
حالیہ دنوں میں جموں و کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے معاملے پر دونوں ممالک کے تعلقات ایک بار پھر نہایت کشیدہ ہیں۔ زاہد حسین کہتے ہیں کہ جموں و کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور بھارت جارحانہ موقف رکھتے ہیں۔
پاکستان کے سابق سفارت کار ایاز وزیر کا کہنا ہے بھارت کے اس اقدام کے باعث پاکستان کو مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ ان کے بقول، یہ بات بھی اہم ہے کہ افغانستان میں امریکہ کے ساتھ بھرپور تعاون کے عوض پاکستان کو کیا حاصل ہوا؟ ایاز وزیر کا کہنا ہے کہ پاکستان کو مشرقی اور مغربی محاذ پر کوئی واضح سفارتی کامیابی نہیں ملی۔
تجزیہ کار زاہد حسین کے بقول، اگرچہ پاک بھارت تعلقات اس وقت نہایت کشیدہ ہیں۔ تاہم، پلوامہ اور بالاکوٹ کے معاملات پر پاکستان کے ردعمل کو اندرون خانہ پذیرائی ملی تھی۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی نوعیت پیچیدہ رہی ہے اور ایسی ہی رہے گی۔