رسائی کے لنکس

خیبر پختونخوا: اقلیتی رکنِ اسمبلی کے قتل کے تمام چھ ملزمان بری


تحریکِ انصاف کے کارکن ایک جلسے کے دوران مقتول سردار سورن سنگھ کی تصویر والے ایک بورڈ کے سامنے جمع ہیں۔ (فائل فوٹو)
تحریکِ انصاف کے کارکن ایک جلسے کے دوران مقتول سردار سورن سنگھ کی تصویر والے ایک بورڈ کے سامنے جمع ہیں۔ (فائل فوٹو)

سردار سورن سنگھ کو اپریل 2016ء میں نامعلوم افراد نے ضلع بونیر کے قصبے پاچا کلے میں ان کے گھر کے اندر گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کی ایک عدالت نے سابق صوبائی مشیر اور رکنِ صوبائی اسمبلی سردار سورن سنگھ کے قتل کے تمام چھ ملزمان کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دیا ہے۔

ضلع بونیر کی انسدادِ دہشتگردی عدالت کے جج جمال الدین نے جمعرات کو سردار سورن سنگھ کے مقدمۂ قتل کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ استغاثہ ملزمان کے خلاف ٹھوس ثبوت اور شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا ہے لہذا عدم ثبوت کی بنیاد پر تمام ملزمان کو باعزت بری کیا جاتا ہے۔

بری ہونے والے ملزمان میں سردار سورن سنگھ کے قتل کے بعد خالی ہونے والی نشست پر منتخب ہونے والے رکن صوبائی اسمبلی بلدیو کمار بھی شامل ہیں۔

خیبر پختونخوا کی پارلیمانی تاریخ میں سب سے زیادہ متحرک اور سرگرم سردار سورن سنگھ 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر غیر مسلم اقلیتوں کے لیے مخصوص نشست پر صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔

بعد میں انہیں صوبائی کابینہ میں وزیرِ اعلیٰ کے مشیر کی حثیت سے شامل کرلیا گیا تھا۔

سردار سورن سنگھ کو اپریل 2016ء میں نامعلوم افراد نے ضلع بونیر کے قصبے پاچا کلے میں ان کے گھر کے اندر گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔

سردار سورن سنگھ کے قتل کا مقدمہ ان کی جگہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہونے والے بلدیو کمار سمیت چھ افراد پر دائر کیا گیا تھا جن کے خلاف مقدمے کی سماعت بونیر کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کر رہی تھی۔

بلدیو کمار پر الزام تھا کہ انھوں نے سیاسی رقابت کی بنیاد پر سردار سورن سنگھ کو اجرتی قاتلوں کے ذریعے قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی اور انہیں قتل کرایا۔

حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف اور حزب اختلاف میں شامل تمام جماعتوں کی مخالفت کی وجہ سے سردار بلدیو سنگھ اب تک صوبائی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے حلف نہیں اٹھا سکے ہیں۔

پشاور ہائی کورٹ نے بھی اسپیکر اسمبلی کو سردار بلدیو سنگھ سے حلف لینے کا حکم دیا تھا لیکن ایوان کے دیگر ارکان کی سخت مخالفت کے باعث صوبائی حکومت اور اسپیکر اسمبلی ہائی کورٹ کے اس حکم پر عمل درآمد کرانے سے قاصر رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG