اکیس اپریل جمعرات کا دن اور بطور صحافی عمران خان کے جلسے کی کوریج حصے میں آئی۔ فیلڈ میں صبح سے موجود ٹیمز کے تجربے کی روشنی میں مینار پاکستان تک جانے کے لیے رنگ روڈ کا انتخاب کیا۔ کیوں کہ لاہور کے اطراف سے گزرنے والی اس سڑک پر بلا تعطل ٹریفک رواں دواں رہتی ہے لیکن عسکری ٹین عبداللہ گل انٹر چینج پر چڑھے ہی تھے کہ رنگ روڈ پر بھی جلسے کے آثار نظر آنا شروع ہوگئے۔
پی ٹی آئی کے بینرز سے سجی گاڑیاں اور بسیں بھی رنگ روڈ پر رواں دواں تھیں، کہیں سڑک کے درمیان ہی کھلاڑی رُک کر پارٹی ترانوں پر جھومتے دکھائی دیے تو ساتھ سیلفی سیشن بھی جاری رہے۔ لیکن جو ٹریفک مسلسل چل رہی تھی، اُسے سبزی منڈی انٹر چینج کے قریب بریک لگنا شروع ہوگئی۔
جلسے میں شرکت کے لیے جانے والی تمام گاڑیوں، بسوں، کوسٹرز کو اب آگے جانے کا راستہ بمشکل مل رہا تھا اور لوگوں نے اپنی گاڑیاں رنگ روڈ پر لگا کر پیدل مارچ کو ہی ترجیح دی۔
وی او اے کے ہمارے ساتھی نوید نسیم سے بھی جتنا ہوسکا، گاڑی ہجوم سے نکال کر جلسہ گاہ کے قریب تک پہنچنے کی بھرپور کوشش کی۔ راستے میں کہیں گاڑی رُکی، کہیں کھلاڑیوں کے قافلوں کا حصہ بنی۔ لیکن پھر مناسب جگہ مل ہی گئی اور گاڑی پارک کر کے ہم نے اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے اپنی اپنی راہ لی۔
نوید نسیم آزادی پُل پر ہجوم سے بات کرنے چل دیے اور میں داخلی دروازے کی تلاش میں چل پڑی۔ بڑی تعداد میں لوگ جس جانب جا رہے تھے، میں بھی اُس قافلے میں شامل ہو گئی۔ لیکن چند گز چلنے کے بعد کُچھ فیملیز مخالف سمت میں جاتی دکھائی دیں، معلوم ہوا کہ فیملیز کے لیے گریٹر اقبال پارک کے گیٹ نمبر چار سے داخلہ رکھا گیا ہے۔
یہ پہلی بار تھا کہ میں نے میڈیا کے لیے مُختص دروازے سے جانے کے بجائے فیملیز کے دروازے سے جانے کو ترجیح دی، فیملیز کے لیےمختص دروازے پر بھی مردوں کا ہجوم تھا جو کسی طرح سے فیملیز کے ساتھ مل کر اندر جانے کی کوشش کرتے دکھائی دیے۔
لیکن جانچ پڑتال کے بعد اُن کے داخلے پر کسی طرح کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جارہا تھا، سب کے لیے واک تھرو گیٹس سے گزرنا لازم تھا جو بہرحال فعال نہیں تھے۔ تقریباً آدھا گھنٹہ مُختلف لائنوں میں کھڑے ہونے کے بعد پارک میں داخل ہو ہی گئے۔
'دیکھو کتنے لوگ آئے ہیں یہاں، نہ قیمے والے نان ہیں نہ بریانی'
کانوں میں یہ الفاظ پڑے تو دیکھا کہ چھ خواتین کا ایک گروپ جلسے میں شرکت کے لیے جارہا تھا، اسی اثنا میں ساتھ چلنے والی ایک فیملی موسم خوشگوار ہونے پر خوشی محسوس کررہی تھی جن کا کہنا تھا کہ رب کا کرم بھی ہے اس پر دیکھو، گرمی کے دنوں میں بھی موسم کتنا اچھا ہو گیا ہے۔ بہت سی خواتین اور بزرگ اپنے ساتھ پورٹ ایبل کُرسیاں اُٹھائے رواں دواں دکھائی دیے۔
پنڈال میں فیملی کے احاطے میں داخل ہوئے تو بزرگ، خواتین، بچے، مرد سب ہی عمران خان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے موجود تھے، نو بجے کا وقت تھا اور جلسہ گاہ تقریباً بھر چکی تھی۔سب نے یک آواز ہو کر قومی ترانہ پڑھا۔
شرکا میں موجود طاہر منصور نامی شخص سے جلسے میں آنے کی وجہ پوچھی تو بولے کہ قومی غیرت ہے جس نے ہمیں یہاں جمع کیا ہے، وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ اس مُلک کو اپنی مرضی سے چلا سکتے ہیں، وہ سُن لیں کہ یہ قوم اب غلامی کی زندگی اور نہیں جئے گی۔
عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں کارکردگی کے سوال پر اُنہوں نے کہا ان ساڑھے تین برسوں میں عمران خان نے پاکستان کو اُس کا تشخص دینے کی کوشش کی جسے اب مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عمران خان نے یاد دلایا کہ پاکستان صوبہ پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا، بلوچستان کے نام پر نہیں بنا تھا، تو ہمیں پورے مُلک کی بات کرنی ہےکسی ایک صوبے کی نہیں۔
پنڈال کے درمیان میں تین لڑکیاں پُرجوش انداز میں نعرے لگاتی دکھائی دیں جنہوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب عید میں چند ہی روز باقی رہ گئے ہیں اور ہمیں شاید بازاروں میں شاپنگ کے لیے موجود ہونا چاہیے، لیکن ہم یہاں عمران خان کے لیے موجود ہیں کیونکہ اس وقت ہمارے مُلک کو ہماری ضرورت ہے۔
فیملیز کے احاطے کے آخر میں ہی میڈیا کنٹینر موجود تھا جس تک جانے کے لیے مجھے وہ سارا ہجوم طے کرنا تھا، سوچا کہ ایک سائیڈ سے جانا بہتر ہوگا، یہ وہ جگہ تھی جہاں لوہے کی سلاخیں، خار دار تاریں اور لوہے کی چادریں لگا کر مردوں اور فیملی کے حصے کو علیحدہ کیا گیا تھا اور جہاں خواتین پولیس اہل کار وقفے وقفے سے لائن میں کھڑی تھیں۔ لیکن کچھ افراد زبردستی وہاں گھسنے کی کوشش کر رہے تھے۔
میڈیا کنٹینر پر صحافی تقریباً دوپہر سے ہی اپنے فرائض نبھانے کے لیے موجود تھے، یہیں موجود اینکر علی ممتاز سے بات کی جنہوں نے بتایا کہ میں نے 30 اکتوبر 2011 کا تاریخی جلسہ اور بعدازاں عام انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کے یہاں ہونے والے جلسے دیکھے، آج بھی مجھے لگ رہا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کا ورکر وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔ اُن کی حمایت میں کوئی کمی نہیں آئی، پُرجوش ہیں، جذباتی ہیں۔
علی ممتاز کہتے ہیں کہ جو مہنگائی کا شور تھا یا بیڈ گورننس کی شکایتیں تھیں، ایسا لگتا تھا کہ شاید عمران خان نے مقبولیت کھو دی ہے، لیکن آج کے جلسے کو دیکھ کر لگ رہا ہے کہ حکومت سے نکالا جانا شاید ان کے لیے بہتر ثابت ہو رہا ہے۔ پی ٹی آئی کا ورکر اور حمایتی ایک بار پھر متحرک ہو گیا ہے۔ تحریکِ عدم اعتماد سے پہلے بھی جو اسلام آباد کا جلسہ تھا میں وہاں بھی پہنچا تھا لیکن میں جلسہ گاہ یعنی پنڈال تک نہیں پہنچ سکا تھا کیونکہ راستے سب بلاک تھے اور بہت بڑی تعداد میں پورے پاکستان سے لوگ وہاں آئے تھے۔
کنٹینر سے نیچے پنڈال کا نظارہ دیکھا تو جس راستے کو طے کر کے اُوپر تک پُہنچی تھی وہ بھی بھر چُکا تھا اور جس راستے پر لیڈی کانسٹیبلز تعینات تھیں، وہاں حالات بگڑتے دکھائی دے رہے تھے۔ کنٹینر پر موجود صحافیوں کا کہنا تھا کہ یہ افراد عمران خان کی تقریر سُننے نہیں شاید شر پسندی کے مقصد سے ہی یہاں پُہنچے ہیں۔ کیونکہ وہ حفاظتی رکاوٹیں پھلانگ کر فیملیز کے احاطے میں داخل ہوتے جا رہے تھے۔ پولیس فورس کا دستہ اُنہیں ایک دفعہ تو بھگا کر چلا گیا، لیکن پی ٹی آئی کے وائس چئیرمین شاہ محمود قریشی اور عمران خان کی تقریر کے دوران اس حصے کے حالات ایسے ہی کشیدہ رہے۔ میڈیا ممبران نے بھی کُچھ وقت کے لیے اپنے کیمروں کا رُخ ہجوم کے اس حصے کی طرف رکھا۔
عمران خان کی تقریر جاری ہی تھی کہ میں نے ایک بار پھر ہجوم میں اُترنے کا فیصلہ کیا کہ لوگوں سے بات کی جائے۔ اپنا راستہ بناتے پنڈال سے باہر بیٹھے لوگ اس بار میری توجہ کا مرکز تھے۔ پنڈال سے باہر گراونڈ کے ایک حصے میں بیٹھی ایک خاتون اور اُن کی تین چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ گپ شپ لگانے کا سوچا، تو پتہ چلا کہ ثمینہ نامی یہ خاتون شاہدرہ سے یہاں آئی ہیں۔ کارکن تو نہیں ہیں لیکن پاکستان کی عام شہری ہیں۔ کہتی ہیں کہ ہمیں عمران خان سے کوئی ذاتی مطلب نہیں لیکن پہچان ہو گئی ہے کہ عمران خان جیسا سچا لیڈر اور کوئی نہیں ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ "ہمیں بھی لگا تھا کہ مہنگائی کررہے ہیں، چیزوں کی قیمتیں بڑھا رہے ہیں لیکن جب سوچا کہ گھر کی سطح پر بھی جب نظام تبدیل کرنا ہو تو شروع میں مُشکلات آتی ہیں لیکن ایک وقت کے بعد خوشحالی آ ہی جاتی ہے اور ہمارے مُلک میں خوشحالی آنے ہی والی تھی کہ پھر پرانے چہرے واپس آ گئے ہیں۔
یہاں سے ہی تھوڑے فاصلے پر ریحانہ بیگم اپنی نواسی، داماد اور بھتیجے کے ساتھ بیٹھی تھیں جن کا کہنا تھا کہ میرا ایمان ہے کہ اپنےمُلک کے حق کے لیے اگر نکلنا پڑے تو نکلنا چاہیے۔ گھر میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔ فوج اگر سرحدوں پر کھڑے ہو کر مُلک کو بچاتی ہے تو اگر مُلک کے اندرخرابی ہو تو عوام کو حق اور باطل کے خلاف اُٹھنا چاہیے۔
اُن سے جب پوچھا کہ عمران خان کو ساڑھے تین سال کا وقت ملا تھا مُلک کی قسمت بدلنے کا تو اُنہوں نے کیا کیا؟ اس سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ مجھے لگتا ہے کہ شاید ہمیں شکایت کی عادت ہوگئی ہے، ہمارے مُلک میں کوئی غربت نہیں ہے۔ مالز دیکھیں یا بازار ہر جگہ لوگ دکھائی دیتے ہیں، کوئی گھر نہیں بیٹھتا اور ہر چیز دُنیا کی خرید رہے ہیں۔ دس سال پہلے دیکھ لیں تو ہمارے مُلک میں گاڑیاں پُرانی ہوتی تھیں، اب ہر گھر میں دو دو تین تین گاڑیاں موجود ہیں اور وہ بھی نئی اور بڑی، پھر بھی غربت کا رونا رو رہے ہیں۔ کوئی چیز نہیں جو سڑ رہی ہو، سبزی والے کی سبزی بک رہی ہے، پھل والے کا پھل بک رہا ہے، کپڑے والے کے کپڑے بک رہے ہیں۔ تو عمران خان نے مُلک کے حالات بگاڑے نہیں بلکہ سُدھارے ہیں۔
اُن کے ساتھ آئی نواسی فاطمہ نے بتایا کہ وہ مشی گن یونیورسٹی کی طالبہ ہیں اور چھٹیاں گزارنے یہاں ہوئیں تھیں، جلسے کا پتا چلا تو گھر والوں کے ساتھ یہاں عمران خان کی حمایت کرنے آ گئیں۔
سگنلز نہ ہونے کے باعث آفس کے کسی اور کولیگ کے ساتھ رابطہ نہیں تھا، کیمرہ ریسورس پرسن کے ساتھ کسی سواری کی تلاش میں باہر نکلے، باہر ٹریفک بلاک ہونے کے باعث اندرون شہر کی گلیوں میں داخل ہوئے۔ واپسی پر سوچا کہ عارف چٹخارہ کھا کر بھوک مٹانے کا بندوبست کیا جائے اور شاید اسی دوران لوگوں کا رش شاید کم ہوجائے، لیکن اندازہ تھوڑا غلط ثابت ہوا، ہمارے جیسے بہت سے لوگ تھے جنہوں نے کُچھ ایسا ہی منصوبہ بنایا ہوا تھا۔
خیر مسلم لیگ (ن) لیگ کے گڑھ میں لال اور ہرے رنگ کے پی ٹی آئی پرچموں کی بہار تھی، کھانے کی تمام میزوں پر وہی لوگ موجود تھے جو ابھی جلسہ میں شرکت بعد لوٹے تھے اور ایک دوسرے سے اپنے تجربے بیان کررہے تھے۔ وہیں کُچھ ن لیگ کے اسپورٹرز بھی 'میاں دے نعرے وجن گے' کا شور مچاتے گزر رہے تھے۔ کھانے کے بعد سواری کی تلاش میں انار کلی تک پیدل سفر کرنا پڑا لیکن رات کے تقریباً ڈیرھ بجے بھی سڑکوں پر واپسی کے سفر پر گامزن لوگوں کی موجودگی نے ہلچل مچا رکھی تھی۔