برطانیہ میں پارلیمانی نظام حکومت ہے۔ کئی بار دیکھا گیا ہے کہ حکومت کے اتحادی اس سے الگ ہوتے ہیں تو پارلیمنٹ کے اندر تبدیلی آ جاتی ہے اور یہ چیز سب کے لیے قابل قبول ہوتی ہے۔ پاکستان میں بھی پارلیمانی نظام حکومت ہے، اتحادیوں نے اگر حکومت سے الگ ہو کر حزب اختلاف کو اقلیت سے اکثریت میں تبدیل کر دیا ہے تو اس میں کیا مختلف ہے۔ برطانیہ میں ایسی ہی تبدیلی سے واقف، تحریک انصاف کے حامی پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کے احتجاج کا کیا جواز ہے؟
عمران خان حکومت کے خاتمے پر احتجاج کرنے والی تحریک انصاف کے لندن کے صدر وحید میاں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اس سوال کے جواب میں کہا کہ برطانیہ میں پارلیمنٹ کے اندر تبدیلی کسی کے اشارے پر نہیں آتی اور نہ ہی کسی پارٹی کے رکن کو خریدا جاتا ہے۔ کوئی رکن لالچ میں آ کر پارٹی تبدیل نہیں کرتا۔ عدالتیں پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سراپا احتجاج ہیں۔
وحید میاں کا کہنا تھا کہ ایون فیلڈ کے فلیٹ کی ایک کھڑکی ہائیڈ پارک کے روسٹرم کی طرف کھلتی ہے۔ وہاں سے آنے والی آوازیں یہاں کے ’باسی‘ کو بیٹھنے نہیں دیں گی۔
یاد رہے کہ لندن میں ہائیڈ پارک اس لیے جانا جاتا ہے کہ کوئی بھی شخص کسی بھی حکومت، ادارے یا فرد کے خلاف ایک مخصوص کارنر میں کھڑے ہو کچھ بھی بول سکتا ہے اور اس کے اس اظہار بیان پر ملکی قانون اس کو گرفت میں نہیں لے سکتا۔
زبیر گل برطانیہ میں مسلم لیگ نواز کے صدر ہیں اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ساتھ اکثر دیکھے جاتے ہیں۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے ورکر ہوں یا کوئی بھی شہری، سب کو اظہار رائے کا حق حاصل ہے۔ لیکن، ان کے بقول، پی ٹی آئی کے ورکرز انتشار پھیلا رہے ہیں۔
’’ جب نواز شریف کی حکومت ختم کی گئی تو انہوں نے کسی ادارے پر حملہ نہیں کیا۔ کسی کے گھر کے سامنے مظاہرہ نہیں کیا۔ میں بھی اسلام آباد سے لاہور کے سفر میں جی ٹی روڈ پر ان کے ساتھ تھا انہوں نے صرف ایک بیانیہ دیا، سلوگن دیا کہ 'ووٹ کو عزت دو' اور 'مجھے کیوں نکالا'‘‘
زبیر گل نے کہا کہ عمران خان حکومت کے خاتمے پر پورا پاکستان خوش ہے اور مسلم لیگ کے ورکرز اور قیادت بھی۔
بیرسٹر امجد ملک برطانیہ میں ایسوسی ایشن آف پاکستانی لائرز کے چئرپرسن ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے کارکنوں کو جلسوں ریلیوں اور اظہار رائے کی برطانیہ میں مکمل آزادی ہے لیکن جس وقت یہ آزادی کسی دوسرے شخص کے ناک تک پہنچی قانون پوری قوت سے حرکت میں آئے گا۔ اور یہ بھی آزادی نہیں ہے کہ مخالفین کے گھروں کی کھڑکیاں توڑی جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاست کو پاکستان کے اندر ہی رہنے دیا جاتا تو اچھا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہائیڈ پارک میں اگر پاکستانی برطانوی شہری برطانیہ اور امریکہ کو بھی برا بھلا کہتے ہیں تو ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔
بیرسٹر ملک کہتے ہیں کہ پاکستانی سیاسی کارکنوں کے انداز سے دنیا پہلے ہی واقف ہے، لیکن دنیا کے دارالحکومت میں ان مظاہروں سے پاکستان کی اندرونی سیاست سے متعلق کوئی رائے نہیں بنے گی۔ دنیا دیکھتی ہے کہ بطور ایک ملک، زمینی حقائق کیا ہیں۔
بیرسٹر ملک نے کہا کہ پی ٹی آئی کے لندن میں دو ڈھائی ہزار رجسٹرڈ ممبر ہیں جو رکنیت کی فیس بھی ادا کرتے ہیں اور ایک مقامی تنظیم کے پاس خاصی رقم ہوتی ہے کہ وہ اس طرح کے مظاہروں پر خرچ کر سکے۔
تحریک انصاف کے عہدیدار وحید میاں کا اس بارے میں کہنا تھا کہ احتجاج کرنے والے سارے کے سارے پی ٹی آئی کے ممبر نہیں تھے ۔ اس میں مختلف پاکستانی تنظیموں اور پاکستان کے شہریوں نے شرکت کی۔ ان کے بقول، پی ٹی آئی لندن کے رجسرڈ، سالانہ 36 پاونڈ فیس ادا کرنے والوں کی تعداد تیرہ چودہ سو ہے جب کہ مظاہرے میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔
پاکستان کے اندر آج کا حکمران اتحاد عمران خان پر ’ سیلیکٹڈ ‘ کی مہر لگاتا آیا ہے۔ اگر وہ کسی خاص پاور کوریڈور سے آئے ہیں اور عوام کے نمائندہ نہیں ہیں تو ملک کے اندر اور ملک کے باہر بڑے بڑے دارلحکومتوں میں احتجاج کون کر رہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں سول ملٹری تعلقات پر ڈاکٹریٹ کرنے والی لندن میں مقیم تجزیہ کار شمع جونیجو نے کہا کہ ان مظاہروں کو دیکھ کر ماننا پڑے گا کہ عمران خان ایک مقبول لیڈر تو ہیں۔ ان کے بقول، لندن میں ایسے لوگوں نے بھی احتجاج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور کھل کر آواز بلند کی جن کو پاکستان کی ’ اسٹیبلشمنٹ کا آدمی‘‘ سمجھا جاتا تھا۔
دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ تحریک انصاف کے سپورٹر کھل کر فوج کے موجودہ سربراہ اور عدالتوں کو سوشل میڈیا پر کھلم کھلا گالم گلوچ اور تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں لیکن دوسری طرف سے خاموشی ہے۔ حالانکہ اس سے کم شدت کے نعرے پی ٹی ایم یا اپوزیشن کے دیگر گروپوں نے لگائے تو ان کو غدار قرار دے دیا گیا۔
کیا فوج نواز شریف کے بعد عمران خان کی تنقید کا بوجھ اٹھا سکتی ہے؟
شمع جونیجو کے بقول ایک مختلف چیز جو دیکھنے میں آ رہی ہے کہ نواز شریف جب فوج کے خلاف تنقید کرتے تھے تو فوج کے ریٹائرڈ افسران جو مختلف چینلز پر تجزیہ کار کے طور پر بیٹھتے ہیں اور ان کو فوج کا غیر سرکاری ترجمان بھی سمجھا جاتا ہے، وہ اس تنقید کا جواب دیتے تھے۔ آج جب عمران خان کے حامی جنرل باجوہ پر تنقید کر رہے ہیں تو تقریباً تمام سابقہ فوجی تجزیہ کار عمران خان کے ساتھ ہی کھڑے نظر آ رہے ہیں۔
شمع جونیجو کے بقول عمران خان نے بہرحال باور کرا دیا ہے کہ پاکستان کے اندر کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر ایک اکیلے عمران خان کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک عمران خان نے پوری سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ 'بیڈ گورننس' اور مہنگائی کے فیکٹرز کے باوجود لوگ ان کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ تاہم، ان کے خیال میں اس کے پیچھے پاپولزم کی سیاست کا عمل دخل ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'سیلیکٹڈ' کا لیبل بہت سافٹ تھا۔ اب ان پر 'فاشسٹ' یا' آئین شکن' کا لیبل لگ سکتا ہے اور وہ نیا نام زیادہ خوفناک ہو گا۔ اگر وہ سیاسی عمل سے نکلیں گے تو وہ سیاسی اکائی نہیں رہیں گے۔
مسلم لیگ نواز کے سنئیر راہنما اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی گزشتہ روز وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیاستدان جب اقتدارکو ہاتھ سے نکلتا دیکتھے ہیں تو بدقسمتی سے وہ مغرب مخالف یا مذہب کا کارڈ استعمال کرتے ہیں اور سادہ لوح لوگ ان کارڈز کے اثر میں آ جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت بھی جو شور شرابا ہے، چند دن بعد تھم جائے گا اور لوگ زمینی حقائق کو سمجھیں گے۔
بیرسٹر امجد ملک کے مطابق، اوورسیز کمیونیٹی کو اپنے کاروباروں اور دیگر معاملات کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔ وہ اختتام ہفتہ اکٹھے ضرور ہو گئے لیکن احتجاج کے اس سلسلے کو برقرار رکھنا آسان نہیں ہو گا۔
تحریک انصاف کے لندن میں موجود عہدیدار میاں وحید کے بقول، پارٹی کے ورکروں اور پاکستانی شہریوں نے جس طرح آواز بلند کرنا شروع کی ہے، وہ تھمے گی نہیں؛ ''اور ہائیڈ پارک کے سپیکر کارنر سے آوازیں ایون فیلڈ کے باسی (سابق وزیراعظم نواز شریف) کو آرام سے نہیں بیٹھنے دیں گی''۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ بیرون ملک پاکستانیوں کو دیا گیاووٹ کا حق برقرار رہنا چاہیے ،لیکن بیرونی ممالک میں احتجاج کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی نئی اتحادی حکومت چاہے گی کہ اوورسیز پاکستانیوں کی بھاری اکثریت کا ووٹ تحریک انصاف کے بکسوں میں نہ پہنچ سکے۔