دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں اتحادی جماعتوں کے ساتھ صوبائی حکومت بنانے والی پاکستان تحریکِ انصاف 2018ء کے عام انتخابات میں صوبہ خیبر پختونخوا سے واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے جس کے بعد وہ بآسانی کسی اور جماعت کی مدد کے بغیر صوبے میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی کی 98 نشستوں میں سے اب تک 85 نشستوں کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج سامنے آچکے ہیں جس کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف نے 63، متحدہ مجلس عمل نے 8، عوامی نیشنل پارٹی اور آزاد امیدواروں نے 7، 7 نشستیں حاصل کرلی ہیں۔
انتخابی نتائج پر پاکستان مسلم لیگ (ن)، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام (ف)، جماعتِ اسلامی اور دیگر جماعتوں نے سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
جمعیت علماء اسلام (ف) کے صوبائی جنرل سیکریٹری مفتی اعجاز نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں بتایا ہے کہ اُن کی جماعت کو انتخابی نتائج پر سنگین تحفظات ہیں کیوں کہ پورے ملک میں انتخابی عمل ختم ہونے کے کئی گھنٹے بعد تک نتائج سامنے نہیں لائے گئے جس کے وجہ سے انتخابی عمل کے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ پاکستان کے تاریخ میں پہلی بار ایسا الیکشن ہوا ہے کہ جس پر سوائے ایک جماعت کے باقی تمام کو تحفظات ہیں کیوں کہ ان کے بقول ایک منظم منصوبے کے تحت ایک ہی پارٹی کو کامیاب بنانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گئے تھے۔
مفتی اعجاز نے کہا کہ انتخابات سے متعلق تحفظات پر جلد تمام سیاسی جماعتوں کا مشاورتی اجلاس بلایا جائے گا اور آئندہ کا لائحۂ عمل طے کیا جائے گا۔
وائس آف امریکہ کی جانب سے بار بار کوشش کے باوجود بھی پاکستان تحریکِ انصاف اور عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی قائدین سے انتخابی نتائج پر ان کا ردِ عمل جاننے کے لیے رابطہ نہیں ہوسکا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریکِ انصاف کو پچھلے انتخابات کی نسبت اس بار کافی زیادہ نشستیں ملی ہیں جن کے بنیاد پر پی ٹی آئی بآسانی صوبے میں حکومت بنانے کی پوزیشن مین ہے۔
صوبے میں حکومت بنانے کے لیے کم از کم 62 نشستیں درکار ہیں لیکن تحریکِ انصاف کی نشستوں کی تعداد کافی زیادہ ہے کیوں کہ حاصل کردہ نشستوں کی نسبت سے اسمبلی میں پی ٹی آئی اقلیتوں اور خواتین کے لیے مختص بیشتر نشستیں بھی حاصل کرلے گی۔
صوبے میں تحریکِ انصاف کی ایسی ہوا چلی ہے کہ کئی بڑے سیاسی رہنما اپنی روایتی نشستیں ہار گئے ہیں۔
تحریکِ انصاف کے امیدواروں کے ہاتھوں عام انتخابات میں شکست سے دوچار ہونے والوں میں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان، قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ، جمعیت علماء اسلام (ف) سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرادری، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ شہباز شریف، جماعتِ اسلامی کے سربراہ سراج الحق اور سابق وزیرِ اعلٰی اور وفاقی وزیر اکرم خان درانی شامل ہیں۔