پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی جیل بھرو تحریک کا آغاز ہو گیا ہے جس کے دوران وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، اسد عمر سمیت پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں نے'گرفتاری' دے دی ہے۔
بدھ کو جن دیگر رہنماؤں نے گرفتاری دی ان میں سینیٹر اعظم سواتی، سینیٹر ولید اقبال سمیت دیگر رہنما بھی شامل ہیں۔
مقامی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق پولیس کا مؤقف ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی گرفتاری کے کوئی آرڈرز نہیں ملے بلکہ یہ لوگ خود قیدیوں کی وین میں آ کر بیٹھ گئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق پولیس نے تحریکِ انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں سے کہا ہے کہ وہ پرامن طور پر منتشر ہو جائیں۔
بعدازاں پولیس اہلکار لاؤڈ اسپیکر پر یہ اعلان کرتے بھی دکھائی دیے کہ جو پی ٹی آئی کارکن جیل جانا چاہتے ہیں وہ خالی کھڑی قیدیوں کی وین میں جا کر بیٹھ سکتے ہیں۔
اس سے قبل پی ٹی آئی کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی کی قیادت میں لاہور میں ریلی نکالی گئی جس میں پارٹی کے مرکزی رہنماوٴں سمیت کارکنوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کارکنوں سے اپیل کی ہے کہ وہ جیل بھرو تحریک میں خود کو پیش ہو کر اس عظیم مقصد میں اپنا حصہ ڈالیں۔
پی ٹی آئی نے اعلان کیا تھا کہ جیل بھرو تحریک کا آغاز لاہور سے ہو گا اور پہلے مرحلے میں شاہ محمود قریشی سمیت پانچ مرکزی رہنما اور 200 کارکن رضاکارانہ طور پر اپنی گرفتاریاں پیش کریں گے۔
مقامی میڈیا کے مطابق لاہور کی جیلوں میں گنجائش نہ ہونے کے سبب گرفتار افراد کو میانوالی، ڈیرہ غازی خان سمیت صوبے کی دیگر جیلوں میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔
رپورٹس کے مطابق حکام کو احکامات جاری کیے گئے ہیں کہ گرفتاری دینے والے افراد کا ریکارڈ بھی چیک کیا جائے، اگر کوئی شخص کسی مقدمے یا بد عنوانی میں ملوث ہو تو اس کے خلاف گرفتاری کے فوری بعد کارروائی شروع کی جائے۔
دوسری جانب شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ بدھ کو ان کے ہمراہ تین دیگر رہنما بھی گرفتاری دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر عارف علوی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نو اپریل کو الیکشن کرانے کا اعلان کیا ہے اگر ان کے اس اعلان پر عمل درآمد ہو جاتا ہے تو پی ٹی آئی کو جیل بھرو تحریک کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے تین ہفتے قبل جیل بھرو تحریک کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ موجودہ حکومت الیکشن کی تاریخ دینے سے گریزاں ہے اور نگران حکومتیں بھی جانب داری کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔
ان کے بقول، حکومتی سیاسی جماعتیں پی ٹی آئی کے ورکروں کو گرفتار کر کے تحریکِ انصاف کو کمزور کر نے کے بعد الیکشن میں جانا چاہتی ہیں لیکن پی ٹی آئی کے کارکن خود گرفتاریاں دینے کے لیے باہر نکلیں گے۔
پی ٹی آئی نے تین روز قبل جیل بھرو تحریک کے شیڈول کا اعلان کیا تھا جس کے تحت پہلے دن لاہور میں کارکن گرفتاریاں دیں گے۔ اس کے بعد پشاور، راولپنڈی، ملتان، گوجرانوالہ، سرگودھا، ساہیوال اور فیصل آباد میں ایک ایک دن گرفتاریاں دی جائیں گی۔
بعض ماہرین کے مطابق 'جیل بھرو تحریک' پارٹی چئیرمین عمران خان کی جیب میں موجود آخری ترپ کا پتہ ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں 'جیل بھرو تحریک' چلانے کا ذکر کبھی 1977 میں پاکستان نیشنل الائنس کے نام سے نظر آتا ہے، کبھی بے نظیر دور حکومت میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے تو کبھی شوکت عزیز حکومت میں متحدہ مجلس عمل کی جانب سے۔
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی طرف سے ایمرجنسی نافذ کرنے کے اعلان کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں بھی اسی قسم کی تحریک چلا چکی ہیں۔
سب سے قابل ذکر کوشش 1981 میں اور پھر 1986 میں جنرل ضیاء کے خلاف سیاسی جماعتوں کے اتحاد تحریک بحالی جمہوریت 'موومنٹ فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی' کی جانب سے کی گئی تھی جب بڑی تعداد میں کارکنوں اور رہنماؤں نےگرفتاریاں پیش کی تھیں۔ لیکن مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور پھر صدر کے عہدے پر فائز ہونے والے ضیاء الحق دونوں بار اس سے آہنی ہاتھوں سے نمٹے۔