شمالی وزیرستان میں ہدف بنا کر قتل کرنے کی وارداتوں کے خلاف میران شاہ اور میر علی میں مقامی لوگوں نے احتجاجی دھرنا دے رکھا ہے جسے اب پشتون تحفظ تحریک کی حمایت بھی حاصل ہو گئی ہے۔
تحریک کے سربراہ منظور پشتین نے ہفتہ کو دیر گئے مظاہرین سے اظہار یکجہتی اور ان کے دھرنے کی حمایت کا اعلان کیا۔
گزشتہ روز پولیٹیکل انتظامیہ کے ایک عہدیدار حامد اللہ کبل خیل کی نامعلوم مسلح حملہ آوروں کی فائرنگ سے ہلاکت کے بعد مقامی قبائلیوں نے گزشتہ ماہ معطل کیا جانے والا اپنا احتجاج دوبارہ شروع کر دیا تھا۔
پشتون تحفظ تحریک ایک مرکزی رہنما علی وزیر نے اتوار کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کی تحریک اس احتجاج کی حمایت کر رہی ہے اور اس کے لیے انھوں نے اپنے کارکنوں پر مشتمل ٹیمیں بھی تشکیل دے دی ہیں۔
"ایک نے ایک ٹیم بھی بھیجی ہے شمالی وزیرستان اور ساتھ ہی آج باقاعدہ جنوبی وزیرستان میں بھی دھرنے کی تیاری کی جا رہی ہے کل سے ہمارا باقاعدہ دھرنا ہوگا وانا سب ڈویژن میں اور سروکئی کے علاقے میں کیونکہ مقامی طالبان نے پشتون تحفظ تحریک کے کارکنوں سے ٹوپیاں چھینیں اور ساتھ دھمکیاں بھی دیں اور ان پر اسلحہ بھی تانا، تو اس کے خلاف بھی دھرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس احتجاج کا مقصد حکام کو یہ باور کروانا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کا پاس کریں اور مقامی لوگوں میں پائے جانے والے عدم تحفظ کے احساس کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدام کریں۔
شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف ہونے والے فوجی آپریشن کے بعد ماضی کی نسبت امن و امان کی صورتحال میں قابل ذکر بہتری دیکھی گئی لیکن اب بھی تشدد کے اکا دکا واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں کو گزشتہ ہفتے ہی صوبہ خیبرپختونخواہ میں ضم کیا گیا تھا جس کے بعد یہاں بتدریج پاکستان کے آئین کی عملداری کے لیے اقدام کرنے کا بتایا گیا ہے۔
لیکن روایتی طور پر آزاد منش قبائل فوجی کارروائیوں کے دوران حکام کی طرف سے ان کا اسلحہ ضبط کیے جانے کی وجہ سے بھی تشویش کا اظہار کرتے آ رہے ہیں اور ان کے بقول اپنی حفاظت کے لیے رکھے جانے والے اسلحے کی ضبطی سے ان میں عدم تحفظ کا احساس بھی مزید بڑھا ہے۔