رسائی کے لنکس

پنجاب کے بجٹ میں صحت کارڈ پر خصوصی توجہ کیوں؟


پنجاب کے بجٹ برائے مالی سال 22-2021 کے مطابق صحت کے شعبہ کے لیے مجموعی طور پر 370 ارب روپے کی رقوم رکھنے کی تجویز رکھی گئی ہے جس میں سے 80 ارب روپے صحت کارڈ کے لیے رکھے گئے ہیں۔ (فائل فوٹو)
پنجاب کے بجٹ برائے مالی سال 22-2021 کے مطابق صحت کے شعبہ کے لیے مجموعی طور پر 370 ارب روپے کی رقوم رکھنے کی تجویز رکھی گئی ہے جس میں سے 80 ارب روپے صحت کارڈ کے لیے رکھے گئے ہیں۔ (فائل فوٹو)

پنجاب کی وزیرِ صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کہتی ہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے حقیقت پر مبنی بجٹ بنایا ہے جس میں صحت کے شعبے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ دوسری جانب صحت کے شعبے سے جُڑے ماہرین اور مبصرین کی رائے میں حکومت کو صحت سے متعلق طویل مدتی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔

پنجاب کے بجٹ برائے مالی سال 22-2021 کے مطابق صحت کے شعبہ کے لیے مجموعی طور پر 370 ارب روپے کی رقوم رکھنے کی تجویز رکھی گئی ہے جس میں سے 80 ارب روپے صحت کارڈ کے لیے رکھے گئے ہیں۔

صحت کارڈ، جس کو تحریکِ انصاف کی حکومت صحت انصاف کارڈ کا نام دیتی ہے، ایک یونیورسل ہیلتھ انشورنس پروگرام ہے۔ بجٹ دستاویزت کے مطابق رواں سال 31 دسمبر تک پنجاب کی 11 کروڑ آبادی کی ہیلتھ انشورنس کی جائے گی۔

وزیرِ صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد کے ایک بیان کے مطابق گزشتہ حکومتوں نے بجٹ میں کبھی بھی عوام کو ریلیف نہیں دیا تھا۔ حکومت نے اپنے خرچے کم کر کے بجٹ میں عوام کو 100 فی صد ریلیف دیا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ تحریکِ انصاف کی حکومت عوام کا پیسہ عوام پر خرچ کرنے پر مکمل یقین رکھتی ہے۔

ڈاکٹر یاسمین راشد کے مطابق صحت کے شعبہ کے لیے 370 ارب روپے کے فنڈز مختص کرنا وزیرِ اعظم عمران خان جانب سے عوام کے لیے تحفہ ہے۔ حکومتِ پنجاب نے 106 ارب روپے کا کرونا ریلیف پیکج دیا ہے۔ اِسی طرح شعبۂ صحت کے ترقیاتی بجٹ میں 182 فی صد اضافہ کر کے 96 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔

صحت کارڈ کے نجی شعبے میں ناجائز استعمال کا اندیشہ

پنجاب کے ضلع پاکپتن کے ایک شہری زاہد نذیر صحت انصاف کارڈ کو ایک اچھی سہولت تصور کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی اُنہیں اِس بات کا گلہ ہے کہ نجی شعبے میں اِس کا ناجائز استعمال ہو سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے زاہد نذیر نے بتایا کہ اُنہوں نے رواں ماہ نو جون کو پاکپتن کے ایک نجی اسپتال میں اپنے والد کا علاج کرایا تھا۔ جنہیں لائی پوما (پاؤں پر اضافی چربی) کی شکایت تھی۔ زاہد نذیر کے بقول اُنہوں نے صحت انصاف کارڈ کے استعمال سے قبل اسپتال انتظامیہ سے علاج اور آپریشن کے اخراجات پوچھے تو اُنہوں نے پندرہ ہزار بتائے تھے۔

زاہد نذیر کے مطابق اسپتال سے فارغ ہونے کے بعد جب اُنہوں نے صحت انصاف کارڈ میں بقیہ رقم دیکھی تو اُنہیں معلوم ہوا کہ اُن کے والد کے کارڈ سے 36 ہزار روپے کاٹے جا چکے ہیں جس کی شکایت اُنہوں نے محکمۂ صحت کی ہیلپ لائن پر درج کرا دی ہے۔

واضح رہے کہ صحت انصاف کارڈ کی سہولت کا آغاز ساہیوال ڈویژن اور ڈیرہ غازی خان ڈویژن سے ہو چکا ہے جس کے تحت کسی بھی ایک خاندان کے افراد سالانہ سات لاکھ روپے تک کا علاج نجی اسپتالوں سے کرا سکتے ہیں جن کی ادائیگی حکومت کرے گی۔

ہیلتھ انشورنس کا نظام آئین سے متصادم؟

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) پنجاب کے صدر ڈاکٹر اظہار چوہدری سمجھتے ہیں کہ ترقی یافتہ قومیں صحت کے شعبے پر اپنی مجموعی آمدنی (جی ڈی پی) کا چھ فی صد سے سات فی صد تک خرچ کرتی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر اظہار چوہدری نے کہا کہ پاکستان کی بدقسمتی کہیے کہ یہاں وفاقی حکومت بڑی مشکل سے 5.7 فی صد پر آئی ہے۔ جب کہ پنجاب کی صوبائی حکومت نے اپنے طور پر کچھ بہتری کی کوشش کی ہے۔

پی ایم اے پنجاب کے صدر ڈاکٹر اظہار چوہدری کی رائے میں صوبے میں ہیلتھ انشورنس کا جو نظام شروع کیا گیا ہے وہ پاکستان کے آئین سے متصادم ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ آئینِ پاکستان کے تحت صحت، تعلیم اور انسانی زندگیوں کا تحفظ حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بظاہر یوں لگتا ہے کہ موجودہ حکومت انشورنس کے نام پر سرکاری اسپتالوں میں ہونے والے علاج معالجے کو بند کر کے نجی اسپتالوں میں رقم کی ادائیگی کی صورت میں کرنا چاہتی ہے۔ اُن کے بقول حکومت یہ سمجھتی ہے کہ جیسا امریکہ اور یورپ میں ہوتا ہے اُسی طرح پاکستان میں ہونا چاہیے اور سرکاری صحت کے نظام کو نجی شعبے کے ساتھ بدل دینا چاہیے۔

پنجاب کے ڈاکٹروں کی تنظیم ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (وائے ڈی اے) پنجاب کے سرپرستِ اعلیٰ اور سروسز اسپتال لاہور کے ڈاکٹر سلمان حسیب چوہدری سمجھتے ہیں کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کچھ چیزیں بقول ان کے تشویش ناک ہیں۔ جن میں سب پہلے حکومت نے ہیلتھ انشورنس منصوبے کے لیے جو 60 ارب روپے رکھے ہیں جس کا آسان مطلب ہے کہ نجی شعبہ کو 60 ارب روپے دیے جائیں گے اور یہ رقم ترقیانی بجٹ 78 ارب روپے میں سے ادا کی جائے گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سلمان حسیب نے کہا کہ نجی شعبے کے چند ایک اسپتالوں کو چھوڑ کر مریضوں کی اچھے انداز میں علاج اور خیال نہیں رکھا جاتا۔

ڈاکٹر حسیب نے دعویٰ کیا کہ نجی اسپتالوں میں تربیت یافتہ اسٹاف کی کمی ہے۔ مشینری اچھی نہیں ہے اور نہ ہی اُن سے کسی قسم کی کوئی پوچھ گچھ ہوتی ہے۔

'کرونا کے ساتھ ہی رہنا ہے، طرزِ زندگی تبدیل کرنا ہو گا'
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:26 0:00

ڈاکٹر اظہار چوہدری کی رائے میں حکومت کو صحت سے متعلق صوبے بھر میں تین سالہ، پانچ سالہ اور 10 سالہ پالیسیاں اور منصوبے بنانے چاہیئں۔

اِسی طرح اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر کے شعبے کے لیے آئندہ مالی سال میں 78 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تجویز کیا گیا ہے جس کے تحت صوبے بھر میں پہلے سے موجود سرکاری اسپتالوں کی بہتری (اَپ گریڈیشن)، نئی مشینری کی خریداری اور صوبے کے پانچ اضلاع میں ماں اور صحت سے متعلق نئے اسپتالوں کا قیام ہے۔

وائے ڈی اے پنجاب کے سرپرستِ اعلیٰ ڈاکٹر سلمان حسیب نے دعوی کیا کہ حکومت کو جو رقوم ٹیچنگ اسپتالوں کی بہتری پر خرچ کرنی چاہیے اُس میں کٹوتی کر دی گئی ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت مستقبل میں کوئی نیا اسپتال بنانے کا ارادہ نہیں رکھتی۔

ڈاکٹر سلمان حسیب کہتے ہیں کہ حکومت نے صحت کے حوالے سے بجٹ میں کچھ اچھے کام بھی کیے ہیں جن میں میو اسپتال کے سرجیکل ٹاور، انسٹیٹوٹ آف کارڈیالوجی، الائیڈ اسپتال فیصل آباد کو بہتر بنانے سمیت کچھ نئی مشینری کی خریداری شامل ہے۔

بجٹ کے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کے سرکاری اسپتالوں میں ادویات کی فراہمی کے لیے 35 ارب 25 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔

ڈاکٹر سلمان حسیب کہتے ہیں کہ کسی بھی حکومت کی صحت کے بارے میں پالیسیوں پر کم ہی توجہ دی گئی ہے۔ سابقہ ادوار کے شروع میں اسپتالوں میں ادویات مفت نہیں ملتی تھیں جو کہ 2016 سے 60 فی صد ملنا شروع ہوئیں۔

ڈاکٹر حسیب مزید کہتے ہیں کہ یہ ادویات 2018 تک اُس وقت تک ملتی رہیں جب تک سرکاری طور پر اِن کا اسٹاک موجود تھا۔

بجٹ کے اعداد و شمار کے مطابق کرونا وائرس کی ویکسی نیشن کے لیے 10 ارب روپے خصوصی طور پر رکھے جا رہے ہیں۔ جب کہ اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کے سرکاری اسپتالوں میں ادویات کی فراہمی کے لیے 35 ارب 25 کروڑ روپے کی رقم مختص کرنے کی تجویز ہے۔

XS
SM
MD
LG