قومی اسمبلی کی طرح پنجاب اسمبلی پر بھی اتوار کی صبح سب کی نظریں تھیں جہاں نئے قائدِ ایوان کا انتخاب ہونا تھا، لیکن یہاں بھی کم و بیش وہی مناظر دیکھنے میں آئے جو قومی اسمبلی میں دیکھے گئے۔
نئے قائدِ ایوان کے لیے اجلاس کا وقت ساڑھے گیارہ بجے مقرر تھا۔
ہم مقرر کردہ وقت سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل ہی یعنی صبح دس بجے اسمبلی پہنچ گئے۔ اسمبلی جانے والے تمام راستوں پر معمول سے زیادہ پولیس تھی۔ کچھ راستوں پر رکاوٹیں کھڑی تھیں جب کہ پولیس کی اضافی نفری بھی جگہ جگہ تعینات تھی۔
اسمبلی کے مرکزی دروازے پر پولیس اور اسمبلی اسٹاف نے چیکنگ کی غرض سے روکا اور اندر جانے کی وجہ جانی۔ بتایا کہ صحافی ہوں اور آج ہونے والے اجلاس کی کارروائی کی رپورٹنگ کے لیے جانا چاہتا ہوں۔ پولیس والے نے اِسی دوران سرگوشی کے انداز میں پوچھا کہ "صاحب آج کیا ہو گا؟. جس کا جواب دیا کہ میدان لگنے والا ہے جو ہو گا سب کے سامنے آ جائے گا۔
جونہی میں اسمبلی کی طرف جانے لگا تو کچھ ارکانِ اسمبلی جن کا تعلق حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں سے تھا کو نعرے بازی کرتے دیکھا۔ پاس جا کر وجہ پوچھی تو معلوم ہوا اُنہیں ایوان کے اندر نہیں جانے دیا جا رہا۔
اِس سلسلے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رکن پنجاب اسمبلی عظمٰی بخاری سے بات ہوئی تو وہ کہنے لگیں کہ پرویز الٰہی اپنی شکست کے ڈر سے (ن) لیگ کے ارکان کو اسمبلی میں جانے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
صحافتی ذمہ واریوں کے پیشِ نظر اسمبلی اسٹاف کے سینئر عہدیدار سے وجہ پوچھی تو اُنہوں نے بتایا کہ چونکہ ابھی 10 بجے ہیں اور اجلاس کا وقت ساڑھے گیارہ بجے ہے۔ اِس لیے ایوان کا دروازہ بند ہے۔ کچھ دیر میں کھول دیا جائے گا۔
اِسی دوران ارکانِ اسمبلی کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ارکانِِ اسمبلی جونہی اپنی گاڑیوں سے اترتے تو کچھ خود سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی طرف آ جاتے اور کچھ کے قریب ہم رپورٹر چلے جاتے۔
بطور صحافی ہم اُن سے پوچھتے کہ کیا ہونے والا ہے؟ جیت کس کی ہو گی؟ نمبر گیم میں کس کو برتری حاصل ہے؟ دونوں اطراف کے ارکان یعنی حکومتی ارکان اور حزبِِ اختلاف کے ارکان دونوں دعوٰی کرتے کہ اُن کی تعداد زیادہ ہے۔ جیت اُنہی کا مقدر بنے گی۔
اِسی دوران سابق وزیر جیل خانہ جات فیاض الحسن چوہان صحافیوں سے گپ شپ لگانے آئے۔ اُنہوں نے آتے ہی پوچھا کہ آپ لوگوں کے پاس کافی اطلاعات ہیں؟ صحافیوں نے اُن کا جواب دینے کے بجائے اُن سے پوچھا کہ پہلے آپ بتائیں کہ کیا صورتِ حال ہے؟ فیاض الحسن چوہان کہنے لگے کہ آج آخری دِن ہے۔
پھر اچانک ہی کیمروں کے سامنے آ کر کہنے لگے کہ ایک بریکنگ دینے لگا ہوں۔ آج انتخاب نہیں ہو گا۔
جس کے بعد اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی اسمبلی پہنچے۔ اسپیکر صاحب سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن دھکم پیل اور سیکیورٹی پر مامور افراد کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔
اِس دوران ارکانِ اسمبلی کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ اِسی اثنا میں یکا یک پولیس کی بھاری نفری اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں کی تعداد بڑھ گئی۔ ایک پرانے جاننے والے پولیس اہلکار نے بتایا کہ بزدار صاحب تشریف لا رہے ہیں۔
سیکیورٹی اہلکاروں نے آج پتا نہیں کیسے اُن سے بات کرنے کی اجازت دے دی۔
بزدار صاحب کہنے لگے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ چوہدری سرور کےبارے میں مختصر گفتگو میں کہا کہ گورنر وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے وفاق کی مرضی جس کو مرضی لگائے۔ اِس بات کے بعد وزیراعلٰی کی سیکیورٹی پر مامور افراد اُنہیں صحافیوں کے مزید سوالوں سے بچا کر اسمبلی کے اندر لے گئے۔
عثمان بزدار کی آمد کے بعد رپورٹنگ کے لیے ایوان کے اندر پریس گیلری جانے کا ارادہ کیا۔ پریس گیلری کے دروازے پر پہنچے تو دروازے کو تالا لگے دیکھا۔ کچھ دیگر اخبارات اور ٹی وی چینلز کے صحافی حضرات وہاں موجود تھے۔ اسمبلی اسٹاف مجھ سمیت تمام لوگوں کو بتا رہا تھا کہ آج آپ لوگ اندر نہیں جا سکتے۔ حکم نہیں ہے۔
میں نے آگے بڑھ کر اسٹاف کو بتایا کہ میرے پاس اسمبلی میں داخلے کا کارڈ موجود ہے۔ آپ چیک کر لیں۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ بات کارڈ کی نہیں ہے۔ اُنہیں حکم ہے کہ آج پریس گیلری بند رہے گی۔
واضح رہے پریس گیلری ایوان کے اندر صحافیوں کے لیے ایک مخصوص جگہ ہوتی ہے۔ جہاں بیٹھ کر وہ رپورٹنگ کرتے ہیں۔ سیکورٹی اہلکار کی بات سن کر واپس اُس جگہ آ گیا جہاں سے ارکانِ اسمبلی ایوان میں داخل ہوتے ہیں۔
واپس آنے پر سیکیورٹی اہکاروں نے ہی بتایا کہ اجلاس شروع ہو گیا ہے۔ اجلاس شروع ہونے کے کچھ ہی دیر بعد اطلاع آئی کہ اجلاس ملتوی ہو گیا ہے۔ تفصیلات جاننے پر سیکیورٹی اہلکارں نے یہی بتایا کہ اجلاس چھ اپریل تک ملتوی کیا گیا ہے۔
اجلاس ملتوی ہوتے ہی ارکانِ اسمبلی باہر آنا شروع ہو گئے۔ اِسی دوران میری ملاقات پنجاب کے سابق وزیر برائے بیت المال سید یاور عباس بخاری سے ہوئی۔ جن کا تعلق پاکستان تحریکِ انصاف سے ہے۔ میں نے پوچھا کہ بخاری صاحب اندر کیا ہوا۔
کہنے لگے کہ ہنگامہ آرائی کے باعث ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس ملتوی کر دیا ہے۔ میں نے پوچھا کہ ہوا کیا تو کہنے لگے کہ اجلاس شروع ہوا۔ تلاوت کے قرآنِ پاک کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے کچھ خواتین جن میں سعدیہ سہیل رانا اور دیگر شامل تھیں نے (ن) لیگ کی خواتین ارکان کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی۔
اُن کے بقول اِسی دوران سعدیہ سہیل رانا نے پی ٹی آئی کی منحرف دو خواتین ارکانِ اسمبلی کو بازو سے پکڑ کر حکومتی بینچوں کی طرف لانے کی کوشش کی اور یہ صورتِ حال ہنگامہ آرائی میں تبدیل ہو گئی۔
سید یاور بخاری کے بقول ہنگامہ آرائی بڑھتے بڑھتے مبینہ ہاتھا پائی میں بدل گئی اور گالم گلوچ شروع ہو گی۔ جس کو ڈپٹی اسپیکر نے کنٹرول کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔
اِسی دوران اُنہوں نے اجلاس چھ اپریل تک ملتوی کر دیا۔ یاور بخاری کی رائے میں وفاقی کی صورتِ حال کے بعد پنجاب کے ایوان میں یہی ہونا تھا اور ووٹنگ نہیں ہونی تھی۔
اِس کے بعد ارکانِ اسمبلی کی مزید تعداد ایوان کے باہر نکلنے لگی۔ وہ گروہوں کی شکل اختیار کرنے لگے۔ ایک گروپ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) پر مشتمل تھا جب کہ دوسرا گروپ(ن) لیگ، ترین گروپ، علیم گروپ اور پیپلز پارٹی پر مشتمل تھا۔ دونوں گروپوں نے ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی۔
یوں وفاق کی طرح پنجاب میں بھی وہ مقصد جس کے لیے اجلاس بلایا گیا تھا، پورا نہ ہو سکا۔