پنجاب اسمبلی کے ارکان، وزرا اور وزیراعلیٰ کی تنخواہوں اور مراعات میں کئی گنا اضافے پر وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ناپسندیگی کے اظہار کے بعد قانونی بل میں ترمیم کر دی گئی ہے۔
وزیر اعلیٰ کو ملنے والی مراعات کی شق کو ٹائپنگ کی غلطی قرار دیتے ہوئے اسے بل سے نکال دیا گیا ہے، تاہم اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کو برقرار رکھا گیا ہے۔
پنجاب اسمبلی سے حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق اسمبلی کے رولز1997کے قاعدہ 200 کے تحت اسپیکر نے ازخود بل میں غلطی کی اصلاح کی جس کے بعد ترمیم شدہ بل پر گورنر سے منظوری حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ترمیم شدہ بل کے مطابق 2002 کے بعد چھ ماہ یا اس سے زیادہ عرصے تک وزیر اعلیٰ رہنے والے شخص کو تا حیات مناسب سیکورٹی فراہم کی جائے گی، جبکہ گھر، گاڑی، اسٹاف اور دوسری مراعات کو بل سے نکال دیا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ ہاؤس بھیجے جانے والے بل میں وزیر اعلیٰ کی مراعات کا کوئی ذکر نہیں تھا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ سیکورٹی ماضی کے تمام وزرائے اعلیٰ کو ملتی ہے اور یہ حق پنجاب کے موجودہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو بھی حاصل ہے۔
مسلم لیگ ن کی رکن پنجاب اسمبلی بشری بٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ حکومت یوٹرن کوئین ہے۔ خود ہی بل لائی اور جب دباؤ پڑا تو اسے واپس لے لیا گیا۔
بل کی منظوری کے بعد ردعمل
بل کی منظوری کے بعد عوامی اور سیاسی حلقوں میں اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور اسے معاشی بحران مبتلا ملک کے ساتھ زیادتی قرار دیا گیا تھا۔
وزیر اعظم عمران خان نے جمعرات کو اپنی ٹویٹ میں اس بل پر اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ملک خوشحال ہوتا تو ایسے اقدام کی تائید کی جا سکتی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے وقت میں جب ہم ہمارے پاس اتنے بھی وسائل نہیں کہ ہم عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کر سکیں ایسے بل کا منظور کیا جانا مایوس کن ہے۔
وزیراعظم نے ایک اور ٹویٹ میں پنجاب میں اپنی پارٹٰی کی حکومت کو بل میں ترمیم کی ہدایت کی تھی جبکہ گورنر پنجاب کو بھی مذکورہ بل پر دستخط نہ کرنے کے لیے کہا تھا۔
تنخواہوں میں اضافے کا بل کیا تھا ؟
پنجاب اسمبلی نے بدھ کے روز اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں غیر معمولی اضافے کا بل متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔
نئے بل کے تحت پنجاب اسمبلی کے ایک رکن کی تنخواہ 83 ہزار سے بڑھ کر دو لاکھ روپے ہو گئی تھی، جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی تنخواہ تقریباً 4 لاکھ روپے تک بڑھانے کی منظوری دی گئی تھی۔
بل میں لاہور سے تعلق نہ رکھنے والے وزیر اعلیٰ کو لاہور میں تاحیات گھر دینے کی شق بھی شامل تھی۔
بل کی منظوری پنجاب اسمبلی میں موجود لگ بھگ تمام سیاسی جماعتوں نے دی تھی جن میں حکمران جماعت تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی بھی شامل تھیں۔
پنجاب اسمبلی کے اراکین کا موقف تھا کہ پنجاب کے علاوہ ملک کی دیگر صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی تنخواہیں ان سے کہیں زیادہ ہیں۔