سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی لاہور آمد سے قبل پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پولیس نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درجنوں کارکنوں کو گرفتار کرلیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق پولیس نے بدھ کی شب لاہور کے تھانہ شفیق آباد اور اسلام پورہ کی حدود میں ن لیگ کے دفاتر پر چھاپے مار کر مسلم لیگ (ن) کے درجنوں کارکنوں کو حراست میں لے لیا۔
گرفتار ہونے والوں میں یوسی 59، یوسی 65، یوسی 66 کے چیئرمین اور درجنوں کارکن شامل ہیں۔
گرفتاریوں کے بعد مسلم لیگ (ن) کے کارکن تھانہ شفیق آباد، گرین ٹاون اور اسلام پورہ پہنچ گئے اور پولیس کے خلاف احتجاج کیا۔
تھانہ شفیق آباد کے باہر احتجاج کی قیادت مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور پی پی 150 سے امیدوار بلال یسین نے کی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بلال یسین نے کہا کہ وہ پولیس کی جانب سے گرفتار کیے جانے والے مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو چھڑانے کے لیے تھانہ شفیق آباد گئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ اب تک درجنوں ایسے کارکنوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے جو ان کے بقول اپنے قائد نواز شریف کی جمعے کے روز وطن آمد پر ایئر پورٹ جانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔
مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی گرفتاریوں کے بعد ماڈل ٹاؤن لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے مرکزی سیکریٹریٹ میں ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ کارکنوں کو گرفتار کرکے کوٹ لکھپت جیل بھیجا جارہا ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت کارکنوں کو بلاجواز گرفتار کرکے اشتعال پیدا کر رہی ہے۔ معلوم نہیں نگران وزیر اعلٰی پنجاب کو گرفتاریوں کا مشورہ کس نے دیا؟
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا کہ انہیں پہلے ہی نگراں وزیراعلیٰ پروفیسر حسن عسکری کی تقرری پر تحفظات تھے اور وہ اس سارے ایکشن کا ذمہ دار نگراں وزیر اعلیٰ کو ٹہراتے ہیں۔
انہوں نے نگراں وزیرِ اعلیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، "آپ کی حکومت صرف دو ماہ کے لیے ہے۔ اس لیے خبردار کرتا ہوں کہ باز آجائیں اور اگر ہمت ہے تو مجھے گرفتار کرکے دکھائیں۔"
مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی گرفتاری پر ڈی آئی جی آپریشن شہزاد اکبر نے وائس آف امریکہ کے رابطہ کرنے پر مؤقف دینے سے انکار کردیا ہے۔
تاہم پولیس کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق صوبہ بھر میں دفعہ 144 نافذ ہے اور نقصِ امن کے خدشات کے پیشِ نظر چند افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پولیس کسی بھی سیاسی جماعت کو قانون ہاتھ میں نہیں لینے دے گی۔
پولیس حکام کے مطابق حراست میں لیے گئے افراد کی فہرستیں محکمۂ داخلہ نے تیار کی ہیں اور تمام افراد کو کوٹ لکھ پت جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔
اطلاعات ہیں کہ نگراں حکومت نے شہر میں امن وامان کی فضا برقرار رکھنے، سیاسی کارکنوں کی نظر بندی اور انتخابی ضابطۂ اخلاق پر مکمل عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے پولیس کو سخت کارروائی کے احکامات دیے ہیں۔
پولیس نے 13 جولائی کو مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو نواز شریف کے استقبال کے لیے علامہ اقبال ایئرپورٹ تک جانے سے روکنے کے لیے مزنگ اور لٹن روڈ لاہور پر کنٹینرز بھی پہنچا دیے ہیں۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ کنٹینروں کی مدد سے ایئرپورٹ جانے والے تمام راستے بند کردیے جائیں گے۔
کارکنان کی گرفتاریوں سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر غور کے لیے مسلم لیگ (ن) نے اپنی قیادت کا ایک ہنگامی اجلاس جمعرات کی دوپہر طلب کر لیا ہے جس کے بعد پارٹی قیادت آئندہ کے لائحۂ عمل کا اعلان کرے گی۔